قلعہ اٹک بنارس سیاحوں کی نظر میں
وکیپیڈیا سے
[ترمیم] ماونٹ سٹوارٹ الفنسٹن(Mount Stuart Elphinston)
۱۸/جون۱۸۰۸ء کو النفنسٹن اپنے ساتھیوں کے ہمراہ خیر آباد پہنچا۔ لکھتا ہے کہ’’ قلع اٹک دریا کے کنارے پر پہاڑی پر بنا ہوا ہے۔ اس کی فصیلیں متوازی الاضلاع ہیں جس کا سب سے چھوٹا رخ دریا کے متوازی تقریباً سو گر لمبا ہے۔ دوسرے اضلاع اس سے دو گنا ہیں۔ دیوار کی تعمیر میں گھڑے ہوئے پتھر استعمال ہوئے ہیں۔ ایک غیر متاثر کن پہاڑ کے پس منظر میں قلعہ خوبصورت منظر پیش کرتا ہے نشیب میں واقع ہونے کی وجہ سے قلعہ کا تمام اندرونی حصہ اور دیوار کی پشت کے تین اطراف دوسرے کنارے سے نظر آتے ہیں۔ شہر بالکل خستہ حال ہے کسی وقت قابل توجہ تھا۔ ‘‘ غالباً یہ پہلا سیاح ہے جس نے یہاں کے لوگوں کی شکل و شباہت اور لباس کے متعلق لکھا ہے وہ کہتا ہے کہ’’ صوبہ کا گورنر معزز درانی ہے جس کے خدوخال اور لباس خراسانی ہے لیکن اٹک کے لوگ درانی یا یوسف زئی دونون کے لباد اور شکل ہندوستانیوں سے ملتے ہیں کیونکہ ان قبائل کے بہت سے افراد سات پشتوں سے یہاں آباد ہیں۔ ‘‘ اسے اٹک میں ایک کھٹڑ بھی نظر آیا۔ اس کا الفنسٹن نے خاص طور پر اس لیے ذکر کیا کہ وہ اپنے خدو خال اور لباس کی وجہ سے بالکل منفرد تھا وہ لکھتا ہے کہ اس شخص کا تعلق کھٹڑوی قبیلہ سے ہے یہ ایک ہندوستانی قبیلہ ہے۔ یہ لوگ سب کے سب اٹک سے جنوب مشرق کے دشوار گزار پہاڑوں میں رہتے ہیں اس کا رنگ بہت کالا تھا چہرے پر ڈاڑھی تھی۔ اس کی شکل سے کرختگی کا اظہار بالکل نہیں ہوتا تھابلکہ کچھ شرمیلا پن جھلک رہا تھا۔ سر پر ایک چھوٹی سی پگڑی بڑے عجیب انداز سے بندھی ہوئی تھی۔ اس کے کپڑے میلے تھے۔ اور اپنی ڈاڑھی کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھا تھا۔
[ترمیم] ولیم مور کرافٹ(William Moor Croft)
۲۹/ مارچ ۱۸۲۳ء کو ولیم مور کرافٹ بخارا جاتے ہوئے بیگم سرائے میں ٹھہرا۔ اس کے پاس قلعہ میں داخلہ کے لیے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا حکم نامہ تھا۔ لیکن اسے قلعہ کے صرف محدود حصوں کو دیکھنے کی اجازت دی گئی۔ وہ سرائے سے قلعہ کے شمالی دروازہ تک جس راستہ سے گیا اس کی اس نے بہت تعریف کی۔ وہ قلعہ میں ایک چھجہ دار چھوٹے سے صحن میں داخل ہوا جس کی لمبائی چوبیس گز تھی۔ اس جگہ قلعہ کے افغان گورنر جہان خان نے والی افغانستان شاہ شجاع کو قید میں رکھا تھا۔ وہ اس سے نکل کر ایک اور دروازہ کے ذریعہ بازار میں داخل ہوا۔ اسے بازار میں کریانہ کی دکانیں زیادہ نظر آئیں۔ مور کرافٹ بازار کی لمبائی چار سو قدم بتاتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ جنوبی دروازہ پہاڑی کے ساتھ کشتی گھاٹ کے عین اوپر کھلتا ہے۔ قلعہ کے دروازے بہت بڑے اور کشادہ ہیں۔ بازار کا رخ دریا کے متوازی ہے۔ بازار اور دریا کے درمیان رہائشی مکانات ہیں۔ قلعہ کے جنوب مغربی زاویہ پر لب دریا ایک برج ہے۔‘‘
[ترمیم] الیگزینڈر برنس(Alexe Burnes)
۱۷/ مارچ ۱۸۳۱ء کو برنس اٹک ایسے وقت پہنچا جب تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے قلعہ اٹک میں رنجیت سنگھ کے سپاہیوں نے بغاوت کی ہوئی تھی۔ اس لیے برنس قلعہ کے اندر نہ جا سکا۔ اس کے خیال میں قلعہ زیادہ محفوظ نہیں ہے۔ اس کی آبادی دو ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔‘‘
[ترمیم] عیسائی مبلغ جوزف وولف(Dr. Joseph Wolff)
معروف عیسائی مبلغ ڈاکٹر جوزف وولف ایک جرمن یہودی ربی کا بیٹا تھا جس نے عیسائیت قبول کر کے برطانوی شہریت حاصل کر لی۔ اس نے عیسائیت کے پرچار کے لیے مشرق کا سفر اختیار کیا۔ مشہد(ایران) کے قریب ترکمن داکوئوں کے ہتھے چڑھ گیا جنہوں نے اس کا کل اثاثہ لوٹ لیا، اس کے جسم سے کپڑے بھی اتروا لیے اور گھوڑے کی دم سے باندھ کر چابک سے مرمت کرتے رہے۔ اس ابتلا میں اس کے دو ایرانی ملازم بھی اس کے ساتھ تھے۔ انہیں غلاموں کی منڈی میں فروخت کرنے کے لیے لایا گیا مگر گورنر خراسان عباس مرزا جو ایران کا ولی عہد بھی تھا، نے ان تینوں کو ڈاکوئوں سے چھڑا لیا۔ یہ شخص بدقت تمام بخارا پہنچا، وہاں سے جب کابل کے لیے روانہ ہوا تو بلج کے پار چند کٹر قسم کے ملائوں نے اسے پکڑ لیا اور اسے کلمہ طیبہ پڑھنے پر اصرار کرتے رہے لیکن تمام جبرو تشدد کے باوجود اس نے کلمہ پڑھنے سے انکار کردیا تو انہوں نے اسے اور اس کے ہمراہیون کو برہنہ کرکے آگے روانہ کر دیا۔ ڈاکٹر جوزف وولف کابل اور پشاور سے ہوتا ہوا ۱۸۲۳ء میں اٹک پہنچا تو اس کا استقبال بطور شاہی مہمان کے کیا گیا مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج نے ۲۱توپوں کی سلامی دی اس کی خدمت میں روپوں کی تھیلی اور مٹھائی کے دونے پیش کئے گئے۔
[ترمیم] بیرن چارلس ہوگل(Baron Charles Hugel)
بیرن چارلس ہوگل ریگنز برگ(بویریا)میں پیدا ہوا تھا وہ پہلے آسٹریلیا کی فوج میں ملازم ہوا اور فوجی ملازمت کے بعد تقریباً دس برس تک اس کو آسٹریلیا کی سیاست میں اہم مقام حاصل رہا۔ جب وہ کشمیر کی سیاحت کے لیے نکلا تو اسے ایسٹ انڈیا کمپنی اور مہا راجہ رنجیب سنگھ نے خاص مراعات سے نوازا ۔ وہ کشمیر سے بروز ہفتہ ۲۶ / دسمبر ۱۸۳۰ء کو دوپہر سے پہلے اٹک پہنچا جہاں پر اس کا استقبال قلعہ کے دروازہ پر کشمیرا سنگھ گورنر کے ضعیف العمر دیوان، نے کیا یہ شخص دہلی کا ایک برہمن تھا ، وہ ہاتھی پر سوار تھا ، اس نے مہا راجہ کی طرف سے روپوں کی ایک تھیلی اور اپنی طرف سے ایک شاخ پر لگا ہوا شہد کی مکھیوں کا چھتہ پیش کیا ۔ چارلس ہیوگل نے دیوان سے قلعہ کو دیکھنے کی اجازت چاہی ، دیوان مذکور نے بڑی فراخ دلی سے اسے قلع کی سیر کرانے پیشکش کی لیکن تنگی وقت کی بنا ء پر وہ اس پیشکش سے پوری طرح استفادہ نہ کر سکا ۔ وہ کہتا ہے یہ قلعہ پہاڑ کی ڈھلوان پر بنا ہوا ہے یہ بہت کشادہ ہے اس کی شکل متوازی الاضلاع یا کثیرالاضلاع سے مشابہ ہے ۔ اسکی زمین نہایت نا ہموار ہے بعض جگہوں پر گھٹ کر چوکور کی شکل اختیار کر لیتا ہے اس کا ایک پہلو دریا کے ساتھ ساتھ شمالاً جنوباً پھیلا ہوا ہے اس کا بڑا دروازہ شمال کی جانب ہے اس کی فصیلیں بلند اور مضبوط ہیں جن پر کنگرے بنے ہوئے ہیں لیکن تعمیری کام میں کوئی شان نہیں ہے ۔ اندرونی قلعہ کے تہائی حصہ کو قابل رہائش بنایا گیا ہے جس میں چار ہزار افراد کے رہنے کی گنجائش ہے اور اس میں ایک بازار بھی ہے۔ اس نے اس قلعہ کے آبی ذخیرے کی بڑی تعریف کی ہے اس کی گہرائی چالیس سے پچاس فٹ ہو گی جس میں پانی دریا سے آتا ہے۔ دریا کی جانب قلعہ کی فصیل سیلابی سطح آب سے صرف آٹھ فٹ بلند ہے لیکن سردیوں میں جب پانی کی سطح گر جاتی ہے تو فصیل پانی کی سطح سے اٹھا ون فٹ تک بلند ہوتی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ مسلمانو ںکے قلعوں میں توپیں بڑی خوبصورت ہوتی ہیں اس لیے اس نے ان کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی ۔ اسے وہ توپیں دکھائی گئیں۔ وہ انکے متعلق لکھتا ہے کہ فی الوقت جو توپیں نصب ہیں وہ پیتل کی بنی ہوئی ہیں اور لاہور میں ڈھالی گئی ہیںاور میرا قیاس ہے کہ یہ فرانسیسی سولہ پونڈر کے برابر ہیں لیکن ان کی ساخت اور ان گاڑیوں کی بناوٹ جن پر انہیں رکھا گیا ہے بہت خوبصورت ہے۔ ان توپوں کو سایہ میں رکھا جاتا ہے کیونکہ سورج کی شدید گرمی میں لکڑی کے پھٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس نے قلعہ کے بازار کی بھی سیر کی وہ لکھتا ہے کہ ’’بازار میں لوگوں اور مویشیوں کی بھیڑ تھی، اونٹ خوفزدہ تھے، گدھے دو لتیاں جھاڑ رہے تھے، گھوڑے ہنہنا رہے تھے اور یہ سب کچھ ایسی جگہ ہو رہا تھا جہاں دکانوں کے درمیان میں صرف تین آدمی شانہ بشانہ چل سکتے تھے۔ دیوان صاحب کے ہاتھی کی صورت دیکھتے ہی جانوروں میں بھگدڑ مچ گئی اس افرا تفری میں سوداگروں کا جو سامان تختوں پر قرینے سے سجا ہوا تھا تہہ و بالا ہو گیا ۔ اٹک کے بازار میں پشاور کابل اور ایران کی مصنوعات کا نہایت عمدہ ذخیرہ ہے اور ہندوستان کی بنی ہوئی اشیاء بہ افراط مل جاتی ہیں۔
[ترمیم] لیفٹیننٹ ووڈ(Lt. Wood)
۴/ اگست ۱۸۳۷ء کو اٹک پہنچا اس نے اٹک میں ایک روز قیام کیا۔ وہ دریائے سندھ کے مطالعاتی مشن کے سربراہ کی حیثیت سے یہاں آیا تھا۔ اس نے اپنے سفر کا آغاز ۲۶/ نومبر ۱۸۳۶ ء کو بمبئی سے کیا اور ۲۱/ جولائی ۱۸۳۷ء کو مکھڈ پہنچا چونکہ اس موسم میں دریا کا پانی چڑھا ہوا ہوتا ہے اور پانی بہت تیز ہوتا ہے اس لیے کالا باغ سے اٹک تک دریائی سفر معطل ہو جاتا ہے لیکن ووڈ نے بڑی مشکل سے۳۷ ملاحوں کو مکھڈ تک سفر پر آمادہ کر لیا۔ وہاں سے اٹک تک کا سفر خشکی کے راستے سے طے کیا۔ اس نے اٹک میں قیام کے حالات تحریر نہیں کیے۔ وہ ہی اس نے قلعہ اٹک اور اٹک شہر اور مضافات کے متعلق کچھ لکھا۔ جبکہ اس نے دریائے سندھ کے وہاں سے مکھڈ تک ساحلی سرزمین ، آب و ہوا، پیداوار،صنعت، رسم و رواج، عادات و اطور کے متعلق تفصیل سے تحریر کیا ہے۔
[ترمیم] سر جان لاگن(Sir. Jhon Login)
سر جان لاگن، رنجیت سنگھ کے سب سے چھوٹے بیٹے اور وارث تخت ، مہاراجہ دلیپ سنگھ کے اتالیق تھے۔ وہ افغانستان سے واپسی پر ۱۸۴۰ء میں اٹک سے گزرے۔ انہوں نے اٹک کے قرب و جوار میں قیام کیا لیکن قلعہ اور شہر اٹک کا ذکر نہیں کیا۔
[ترمیم] سپاہی واٹر فیلڈ کی سرگزشت
ایک انگریز سپاہی واٹر فیلڈ(Water Field) نے ۱۸۴۲ء سے۱۸۵۷ء تک اپنی یادداشت کو تاریخ وار قلمبند کیا وہ اپنے فرائض منصبی کے دوراں۲۹/دسمبر ۱۸۵۱ء کو سنگ جانی پہنچا۔ ۳۰/ دسمبر کو واہ، یکم جنوری کو حسن ابدال اور برہان سے ہوتا ہوا دو جنوری کو شمس آباد آیا۔ پھر دس میل کا فاصلہ طے کر کے اٹک پہنچا۔ وہ لکھتا ہے کہ اٹک کا راستہ نسبتاً بہتر ہے۔ لیکن دریائے سندھ کے کنارے دیڑھ میل کے ٹکڑے پر ریت بہت زیادہ ہے۔ اس لیے اس حصہ میں بیل گاڑیوں کو ہانکنے میں بڑی دقت پیش آتا ہے۔ اٹک کا قلعہ ایک سلسلہ کوہ کے نشیب میں بنا ہوا ہے۔ یہ کوئی مضبوط قلعہ نہیں صرف قصبہ کے گرد ایک دیوار ہے۔ قلعہ کے اندر اشیاء سے پر ایک بڑا بازار ہے۔ دریائے سندھ اس مقام پر ایک سو گز وسیع ہے لیکن بہت گہرا اور تیز رفتار ہے۔ دائیں ہاتھ پر پانی سے چلنے والا آرا مشین ہے یہاں دو یا تین بنگلے ہیں۔ گزشتہ اوراق میں یورپین سیاحوں کے مشاہدات و تاثرات اجمالاّ پیش کیے گئے۔ اب برصغیر کے چند اصحاب کی تحریروں کا انتخاب پیش کیا جاتا ہے۔
[ترمیم] شیخ رحمت علی
شیخ رحمت علی۱۷۹۷ء میں درانی عہد حکومت میں اٹک آئے انہیں ریزیڈنٹ لکھنوئو،جے لمسڈنJ. Lumsden نے دہلی سے کابل بھیجا تھا وہ حسن ابدال سے سرائے میران،سرائے ڈنگراںاور شمس آباد سے ہوتے ہوئے اٹک پہنچے۔ آجکل اولالذکر دو مقامات موجود نہیں ہیں یا ان کے نام تبدیل ہو چکے ہیں، اب شمس آباد بھی شاہراہ پر واقع نہیں ہے۔ وہ کہتے کہ سمش آباد سے اٹک کا فاصلہ دس میل ہے۔ اٹک دریائے سندھ کے کنارے پہاڑ پر آباد ہے۔ اس کے بائیں ہاتھ کی زمین دلدلی ہے۔ اٹک میں تقریباً دو سو گھر ہیں لیکن مضافات میں آبادی بہت کم ہے۔ قلعہ پر خٹک افغان قابض ہیں۔
[ترمیم] نبی بخش بخاری الحیدری
اردو زبان کے قدیم ترین سفر نامہ میں اٹک کا بھی ذکر ہے۔ یہ سفر نامہ سید فداحسین عرف نبی بخش بخاری الحیدری نے تحریر کیا ہے۔ وہ انگریز فوج میںجمعدار(نائب صوبیدار) تھے انگریزوں کے ساتھ ایک فوجی مہم میں افغانستاں گئے۔ انہوں نے اپنے سفر کا آغاز پچیس شعبان ۱۲۰۰ہجری(تین نومبر۱۸۳۹ئ) کو شاہجہاں آباد سے کیا اور ۱۲/نومبر ۱۸۸۴ء میں کابل سے واپس روانہ ہوئے۔ خیبر اور پشاور سے ہوتے ہوئے خیر آباد پہنچے۔ آپ لکھتے ہیں’’ خیر آباد جو دریائے سندھ کے کنارے ہے۔ اٹک کا قلعہ دریا کے کنارے بہت خوب اور محکم جنگی اسباب سے آراستہ سنگ سرخ سے تعمیر کیا گیا ہے۔ شہر بہت آباد ہے۔ رعیت مالدار۔ا ن دونوں قلعہ اور شہر کی خندق دریائے سندھ ہے۔‘‘
[ترمیم] حکیم محمد یوسف
حکیم محمد یوسف حضرو تحصیل اٹک کے رہنے والے تھے۔ جامعہ الازہر(مصر) کے فاضل اور مستند طبیب تھے۔ آپ کا مطب کلکتہ میں تھا آپ جنرل کونسل اینڈ سٹیٹ فیکلٹی آف یونانی میڈیسنز بنگال کے ممبر تھے اور متعدد طبی کتب کے مصنف تھے۔ آپ نے ۱۹۴۴ء میں سوات کی سیر کے لئے رخت سفر باندھا۔ ایک سیاح کی حیثیت سے سفر میں جو کچھ دیکھا جو واقعات پیش آئے بہت دلنشین انداز میں ’’سیرسوات‘‘ کے نام سے شائع کر دی ۔اس کا ابتدائی حصہ جو حضرو سے اٹک تک کے سفر پر مشتمل ہے نقل کیا جارہا ہے۔ ’’۸/جون۱۹۴۴ء روز پنجشنبہ کی صبح ، تاریک شب کی پیشانی پر صبح تقدس کی ملکوتی روشنی کی مدھم شعاع نمودار ہوئی ، کائنات پر صبح صادق بتدریج مسلط ہوئی ،روشنی رفتہ رفتہ تیز ہونے لگی اور سیاہی کا گہرا رنگ آہستہ آہستہ ہلکا پڑتا گیا۔ ۔ ۔ کرہ ارض جگمگا اٹھا طیور چہچہانے لگے ،سبزہ خوابیدہ نے انگڑائی لی کلیاں مسکرا پڑیں، ہر طرف انوار ہونے لگی، برکتیں نازل ہوئی اور مساجد سے صدائے اﷲ اکبر، دیر سے ہنگامہ نا قوس بلند ہوا اور دنیا ایک مرتبہ پھر زندگی کی سانسیں لینے لگی۔ہم حوائج ضروری سے فارغ ہوئے خدا وند ذوالجلال والاکرم کے حضور میں سر نیاز خم کیا ، دنیا کے لیے امن و امان کی التجا کی ۔ اس کے بعد ہمارے بھائی آزاد خان تانگہ لے کر آئے اور ہم نے بسم اﷲ کر کے تانگہ پر قدم رکھا اور منزل مقصود کی طرف روانہ ہو گئے۔ جون کا مہینہ پنجاب، حضرو اور اطراف سرحد کے لیے ہمیشہ سے بیحد صبر آز می ثابت ہو ہے،آفتاب کی تیزی کے ساتھ لو بھی تیز چلنے لگتی ہے اور اکثر راتیں بھی ایسی ہوتی ہیں جب نصف حصہ شب تک لو چلتی رہتی ہے لیکن آج فضا کچھ اپنی چیرہ دستیوں سے تھک کر مسافران نو پر مہربان تھی اس لیے صبح روانگی کے وقت اطراف حضرو میں کسی قدر کیف آفریں خنکی محسوس ہو رہی تھی اور ویسے بھی چونکہ حضرو کے واروں طرف کنوؤں کے پانی سے زمین پر آبپاشی کی جاتی ہے اس لیے ہواؤں کی گرمی قدرتاً کم ہو جاتی ہے لیکن یہ کیفیت صرف اسی رقبہ تا محدود ہے جب مسافر ،حدود حضرو سے باہر ہوتا ہے اس وقت یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہو کا ہر ایک جھونکا اس امر پر آمادہ ہے کہ قدرت کے لگائے ہوئے باغ کے ہر شجر کو جھلس دے۔ جب ہم لوگ ہٹیاں پہنچ کر جرنیلی سڑک پر اٹک کی طرف روانہ ہوئے تو راستہ میں ہوا کا ہر جھونکا رگوں کے خون کو جھلس دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ ۔ ۔ حضرو سے اٹک تک ۱۶ میل کا سفر پانچ گھنٹہ میں طے کیا گیا ۔ایک طرف سربفلک پہاڑ ، دامن کوہ میں بلندی پر جاتی ہوئی کشادہ سڑک اور اس کے داہنی سمت دریائے سندھ کی روانی ۔ ۔ ۔ دریائے سندھ کے اس پار شمال کی طرف سے آتا ہو ا دریائے کابل جب دریائے سندھ میں گرتا ہے تو یہ دونوں دریا لا انتہا قوت کے ساتھ آپس میں ملتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں اس اتحاد و اتفاق سے دلبرداشتہ ہیں جس کا ثبوت اس طرح ملتا ہے کہ دونوں دریا ئوں کے پانی میں ایک حدفاصل ۔ ۔ ۔ اپنی انفرادی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے جدوجہد کرتی ہے آخر کا اتفاق کے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے دونوں دریا آپس میں شیر و شکر کی طرح مل جاتے ہیں۔ ۔ ۔ دریائے اٹک کے مشرقی کنارہ پر آپ کو اٹک کا قلعہ اس طرح نظر آئے گا جیسے ایک زریںطشت میں انواع و اقسام کی نعمتیں چنی ہوں ۔ قلع کی ہر عمارت اور اس کا ہر زاویہ آپ کی نگاہ کے سامنے ہو گا اور آپ متعجب ہوں گے کہ اس علاقہ میں اتنے اہم مقام پر اس قدر چھوٹا سا قلعہ ، لیکن اگر آپ کو قلعہ کے اندر جانے یا اس کے چاروں طرف پھرنے کا اتفاق ہو تو اس کی عظمت آپ کی سمجھ اور فہم سے بہت بالا ہو گی ۔ قلعہ اٹک ازمنہ قدیم کہ فن انجینئری کی ایک ایسی لاثانی تمثیل ہے جس کا جواب اس وقت تک نہیں ہو سکا ۔‘‘
[ترمیم] ابو سعید قریشی
حکیم حاجی محمد یوسف حضروی کے بر عکس مشہور ادیب ابو سعید قریشی،بڑی عجلت میں اٹک سے گزر جاتے ہیں۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ تو آئیے راولپنڈی چلیں، لیکن اٹک میں ستون کیسے نظر آرہے ہیں ؟ کوئی کہ رہا ہے کہ مغلوں کے عہد میں یہاں پل ہوا کرتا تھا اور یہ پتھر کیسے ہیں ؟ یہ قلعہ ہے ۔! مگر ہمیں رکنے کی مہلت نہیں، ہمارے سامنے کئی صدیوں کی مسافت پڑی ہے۔ وہ محض ایک مسافر تھے اس لیے ان چیزوں پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی اور بس۔ اگر وہ مورخ ہوتے تو ان ستونوں ،پتھروں اور قلعہ کو بنظر غائیر دیکھتے اور بھر بتاتے کہ یہ محض ستون پتھر اور قلعہ نہیں ہے یہ تو انسانی تہذیب و تاریخ کا ایک مکمل باب ہے ۔ اقوام وملل کی عروج و زوال کے زندہ داستان ہے۔ ///

