محمد بن علی سنوسی

وکیپیڈیا سے

سید محمد بن علی سنوسی (پیدائش 1787ء، انتقال: 1859ء) سنوسی تحریک کے بانی تھے جو 19 ویں صدی میں لیبیا کے جنوبی صحرائے علاقے میں شروع ہوئی۔

[ترمیم] ابتدائی زندگی

محمد سنوسی الجزائر کے شہر مستغانم کے قریب پیدا ہوئے۔ قرآن حفظ کرنے اورابتدائی دینی تعلیم کے بعد انہوں نے فاس (مراکش) کی جامع قروئین میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے مشرق کا رخ کیا لیکن قاہرہ کا ماحول انہیں موافق نہ آیا۔ جامع ازہر کے علماء ان کے مخالف ہوگئے۔ علاوہ ازیں ان کو والی مصر محمد علی پاشا کی اصلاحات بھی پسند نہ آئیں اور انہوں نے غیر اسلامی سرگرمیوں کی علانیہ مذمت کی۔

[ترمیم] مکہ معظمہ میں قیام

قاہرہ سے محمد سنوسی مکہ معظمہ چلے گئے اور وہیں 1837ء میں انہوں نے پہلا زاویہ قائم کیا بعد میں یہی زاویے یا حلقے سنوسی تحریک میں مرکزی حیثیت اختیار کرگئے۔ اس قسم کے زاویے انہوں نے اپنے قیام کے دوران مختلف مقامات پر قائم کئے اور اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانا شروع کردیا۔ آخر میں انہوں نے برقہ یا سائرنیکا کے صحرا میں واقع نخلستان "جغبوب" میں 1853ء میں اپنی دعوت کا مرکز قائم کیا۔ اگرچہ بعد میں انہوں نے یہ مرکز جنوب میں کئی سو میل کے فاصلے پر واقع نخلستان کفرہ میں منتقل کردیا لیکن جغبوب کو سنوسی تحریک میں ہمیشہ اہم مقام حاصل رہا۔

[ترمیم] سنوسی تحریک

سنوسی تحریک کا مقصد کتاب و سنت کی بنیاد پر عالم اسلام کا دینی احیاء تھا۔ وہ امام احمد بن حنبل، امام غزالی، امام ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب سے متاثر تھے اور ان کی تحریک محمد بن عبدالوہاب کی ہم عصر نجدی تحریک سے بہت زیادہ مشابہ تھی۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے علاوہ محمد سنوسی نے صحرائے اعظم میں خانہ بدوشوں کی بستیاں آباد کرنے اور کھیتی باڑی شروع کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ دراصل سنوسیوں کی یہی بستیاں "زاویہ" کہلاتی تھیں۔ ہر زاویہ اقتصادی لحاظ سے خود کفیل ہوتا تھا اور یہی زاویے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے مرکز بن گئے۔ سنوسی ایک ہی وقت میں مبلغ، معلم اور کسان تھے اور جب انہیں جہاد کی دعوت پہنچتی تو وہ میدان جنگ کا رخ اختیار کرلیتے۔

سنوسی تحریک محمد سنوسی کے صاحبزادے سید مہدی (پیدائش 1824ء، انتقال: 1902ء) کے زمانے میں تحریک کی قوت عروج پر پہنچ گئی اور کفرہ نے دارالعلوم کی حیثیت اختیار کرلی جس کے کتب خانے میں مختلف علوم کی 8 ہزار کتابیں تھیں۔ صحرائے اعظم میں کتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ جمع کرنا کچھ کم حیرت کی بات نہیں۔

لیبیا کی معروف مجاہد شخصیت عمر مختار بھی سنوسی شیخ تھے جنہوں نے اٹلی کی جارحیت کے خلاف تاریخی جہاد کیا اور اپنی جان کا نذرانہ دے کر ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کی سب سے بڑی شاہراہ آج بھی اس مرد مجاہد کے نام پر "شارع عمر مختار" کہلاتی ہے۔ ان کی شہادت کے ساتھ ہی سنوسی تحریک کی مسلح مزاحمت ختم ہوگئی۔