احمد راہی

وکیپیڈیا سے

احمد راہی
احمد راہی

پیدائش:1923ء

انتقال:ستمبر 2002ء


فہرست

[ترمیم] ابتدائی زندگی

فلمی کہانی نویس اور نغمہ نگار ۔جدید پنجابی ادب کے ایک بہت ہی اہم شاعر۔احمد راہی کا تعلق امرتسر کے ایک کشمیری خاندان سے تھا جو آزادی کے بعد ہجرت کر کے لاہور آ گیا۔


[ترمیم] فنی زندگی

امرتسر میں ہی انہوں میں مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو ، شاعر سیف الدین سیف ، کہانی نگار اے حمید کی صحبت میں رہتے ہوئے ادب میں دلچسپی لینا شروع کردی لیکن لاہور کے ادبی ماحول میں اس میں مزید نکھار آیا۔

لاہور آمد پر انہیں ترقی پسند ادبی مجلے ’سویرا‘ کا مدیر بنا دیا گیا۔ لیکن جب ترق پسند ادیبوں کے خلاف حکومتی کارروائیوں میں تیزی آئی تو انہوں نے فلمی دنیا کا رخ کیا۔


[ترمیم] فلمی دنیا

احمد راہی نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز پنجابی فلم ’بیلی‘ سے کیا جو تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کے پس منظر میں بنائی گئی تھی۔ اس فلم کی کہانی مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے لکھی جبکہ ہدایات دی تھیں مسعود پرویز نے۔ انہوں نے مسعود پرویز اور خِواجہ خورشید انور کی مشہور پنجابی فلم ’ہیر رانجھا‘ کے لئے بھی نغمات لکھے جن میں ’سن ونجھلی دی مٹھڑی تان‘ اور ’ونجھلی والڑیا توں تے موہ لئی اے مٹیار‘ آج بھی اپنا جادو جگاتے ہیں-انہوں نے فلمی حلقوں میں بھی اپنا ایک خاص مقام بنایا اور ان کے لکھے ہوئی گانوں میں بھی لوگوں کو لوک شعری اور ادب کا رنگ دیکھنے کو ملا۔

پنجابی فلمی شاعری کے لئے ان کی خدمات ویسی ہی ہیں جیسی ساحر لدھیانوی اور قتیل شفائی کی اردو فلموں کے لئے ہیں۔ انہوں نے اردو فلموں کے لئے بھی منظر نامہ، مکالمے اور گانے لکھے۔ ان کی مشہور اردو فلموں میں ’یکے والی‘ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔


[ترمیم] پنجابی ادب

پنجابی ادب میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ ان کا نظموں کا مجموعہ ’ترنجن‘ ہے جو سن انیس سو باون میں شائع ہوا۔ اس وقت تک پنجابی کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ نازک احساسات اور جذبات کے اظہار کے لئے یہ زبان موزوں نہیں ہے لیکن احمد راہی ترنجن کے ذریعے اس تاثر کو زائل کرنے میں کامیاب رہے۔

ترنجن کی نظموں میں تقسیم ہند کے وقت ہونے والے ہندومسلم فسادات میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو بڑے شاعرانہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے:

ناں کوئی سہریاں والا آیا
تے ناں ویراں ڈولی ٹوری
جس دے ہتھ جد ی بانہہ آئی
لے گیا زور و زوری

(نہ کوئی سہرے والا آیا، نہ بھائیوں نے ڈولی اٹھائی، جس کے ہاتھ جو لگی وہ اسے زبردستی لے گیا)

اس مجموعے کا فلیپ منٹو نے احمد راہی کی فرمائیش پر پنجابی میں لکھا اور یہی منٹو کی اکلوتی پنجابی تحریر بھی ثابت ہوئی۔لاہور میں ان کا انتقال ہوا۔