شیخ محمد رشید
وکیپیڈیا سے
پیدائش: 1917ء
انتقال: 2002ء
پیپلز پارٹی کے بانیوں میں سےایک پارٹی کےسابق سینیئر نائب چیئرمین، بابائے سوشلزم۔ لاہور کے قریبی ضلع شیخوپورہ کے ایک متوسط طبقے کے کسان گھرانے میں جنم لیا اور انیس سو سینتالیس میں تقسیم برصغیر سے قبل ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
آزادی کےوقت وہ لاہور میں سٹی مسلم لیگ کے سیکریٹری اور پیشہ ور وکیل تھے۔سوشلسٹ رجحانات اور نظریات کی طرف مائل ہونے کے باعث انہوں نے چند برس بعد ہی آزاد پاکستان پارٹی کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد ڈالی جس کا مقصد ترقی پسند خیالات کا فروغ تھا۔شیخ رشید اس جماعت کے پہلے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے لیکن انیس سو سڑسٹھ میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر پاکستان پیپلز پارٹی تشکیل دی۔
وہ پارٹی کی مرکزی اگزیکوٹیو کمیٹی کے بانی تھے اور بعد میں پیپلز پارٹی کی سب سے پہلی کابینہ کے رکن بنے۔ وہ ابتدا میں وزیر صحت کے عہدے پر فائز ہوئے اور بعد میں زمین کی ملکیت سے متعلق اصلاحات کے کمیشن کےچیئرمین مقرر ہوئے۔زمین کی ملکیت کی حد مقرر کرنے اور بڑی کمپنیوں کے ناموں سے تیار ہونے والی دواؤں کی قیمت پر کنٹرول کرنےکی کوششوں کے باعث بالترتیب پارٹی میں شامل زمیندار سیاستدان اور بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں شیخ رشید کو ناپسند کرنے لگیں۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین کی ملکیت سے متعلق اصلاحات پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہوا اور سستی دواؤں کی تیاری اور فراہمی کا منصوبہ بالائے طاق رکھ دیا گیا۔
تاہم شیخ رشید ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی رہے۔ بھٹو انہیں کابینہ کے سب سے سینیئر رکن کا مقام دیتے کیونکہ غالباً وہ پارٹی میں موجود ترقی پسند اور قدامت پسند عناصر میں توازن برقرار رکھنا چاہتے تھے۔انیس سو اناسی میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیے جانے کے بعد آنے والے پیچیدہ اور اہم برسوں میں شیخ رشید مسلسل پارٹی کے سینیئر نائب چیرمین رہے۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل ضیا الحق ملک کے فوجی حکمران تھے اور شیخ رشید پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے لئے مشعل راہ۔
لیکن انیس سو اسی کے عشرے کے آخری حصے میں جب پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار میں آئی تو اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور شیخ رشید کے درمیان اختلافات کے باعث فاصلہ بڑھنے لگا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بےنظیر کے خیال میں شیخ رشید کے سوشلسٹ نظریات اس وقت کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ان اختلافات کے باوجود شیخ رشید پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلص رہے اور دیگر اراکین کی طرح انہوں نے پارٹی تبدیل نہ کی۔
انہوں نےپانچ برس کی طویل علالت کے دوران خود نوشت سوانح عمری مرتب کی۔ جو بعد میں شائع ہوئی۔لاہور میں ان کا انتقال ہوا۔


