خوارزم شاہی سلطنت

وکیپیڈیا سے

تاریخ ایران

خوارزم شاہی سلطنت (فارسی: خوارزمشاہیان) وسط ایشیا اور ایران کی ایک سنی مسلم بادشاہت تھی جو پہلے سلجوقی سلطنت کے ماتحت تھی اور 11 ویں صدی میں آزاد ہوگئی اور 1220ء میں منگولوں کی جارحیت تک قائم رہی۔

جس وقت خوارزم خاندان ابھار اس وقت خلافت عباسیہ کا اقتدار استقلال و زوال کے آخری کنارے پر تھا۔ سلطنت کے قیام کی حتمی تاریخ واضح نہیں۔ خوارزم 992ء تا 1041ء غزنوی سلطنت کا صوبہ تھا۔

فہرست

[ترمیم] جد اعلی

1077ء میں صوبے کی گورنری خوارزم شاہی خاندان کے جد اعلی انوشتگین کے ہاتھ آگئی جو سلجوقی سلطان کا غلام تھا۔ انوشتگین غیر معمولی ذہانت و قابلیت کا مالک تھا۔ اس لئے سلجوقی سلطان اس کو عزیز رکھتا تھا۔ اس کا ایک بیٹا قطب الدین محمد اول بھی انہی صلاحیتوں کا حامل تھا۔ اس کی تعلیم و تربیت سلجوقی امراء کے درمیان ہوئی تھی اس لئے سلجوقیوں نے اسے ایک صوبے کی حکومت سپرد کردی تھی جہاں وہ نہایت محنت سے اپنے فرائض منصبی بجالاتا تھا۔

انوشتگین کی وفات کے بعد محمد کو اس کی قابلیت کی بنیاد پر باپ کی جگہ دی گئی جس نے اپنی کارگذاری و وفاداری سے سلطان سنجر کے مزاج میں بڑا رسوخ حاصل کیا۔ محمد کی وفات کے بعد اتنسر بن محمد اس کا جانشیں بنا جس نے صوبہ خوارزم میں حکومت کی بنیاد رکھی۔ اتنسر کا لقب خوارزم تھا جس کی بنیاد پر یہ خوارزم شاہی سلطنت کہلائی۔

[ترمیم] خوارزم شاہ

خوارزم شاہی سلطنت
خوارزم شاہی سلطنت

خوارزم شاہ نے اپنے باپ کی جگہ لے کر کئی دفعہ سپہ سالاری کے فرائض انجام دیئے۔ اس کی قابلیت سے سلطان سنجر سلجوقی اتنا متاثر تھا کہ اسے ہر وقت اپنے پاس رکھتا تھا، اس کو سپہ سالار اعظم بناتا اور اس کا شمار اہم درباریوں میں ہوتا تھا۔ اس سے کئی حاسد پیدا ہوگئے اور انہوں نے سلطان سنجر کے اس سے تعلقات کشیدہ کردیئے جس پر خوارزم شاہ نے اپنی خود مختار حکومت قائم کرلی۔

ان اختلافات کی وجہ سے سلطان سنجر اور خوارزم شاہ کے درمیان جنگ ہوئی جس میں خوارزم شاہ کو شکست ہوئی اور اس کا بیٹا اور کئی دیگر لوگ مارے گئے۔ سلطان سنجر نے خوارزم پر قبضہ کرکے غیاث الدین غوری کے سپرد کردیا لیکن غیاث الدین اہل خوارزم کو خوش نہ کرسکا۔ اس لئے انہوں نے خوارزم شاہ کو واپس بلاکر شہر اس کے حوالے کردیا۔ اس طرح اتنسر عرف خوارزم شاہ خوارزم کا مستقل حکمران بن گیا۔

مستقل حکومت حاصل کرنے کے بعد اس نے بادشاہ خطا کی پشت پناہی میں خراسان، مرد اور نیشا پور بھی حاصل کرلیا۔ اتنسر نے صوبے میں قتل و غارت گری کرڈالی اور مسلمانوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں سلجوقی ترکوں کا ایک گروہ ترکان غزل ان سے علیحدہ ہوگیا اور سلطان سنجر سے خراسان چھین لیا۔ سلجوقی سلطنت میں انتشار پھیل گیا وار اس کی تمام قوت کا خاتمہ ہوگیا۔ 551ھ میں خوارزم شاہ کا انتقال ہوگیا۔

[ترمیم] ارسلان بن اتنسر

اتنسر کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا ارسلان تخت نشین ہوا۔ اس نے اپنے بھائی سے دشمنی کی اور سلطان سنجر کی اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار کیا۔ جس پر سلطان سنجر نے اسے خوارزم کی سند حکومت دے دی۔ اس کے بعد سلطان سنجر کے مخالف ترکان خطا سے جنگ کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ اس کے کچھ عرصے بعد ارسلان کا انتقال ہوگیا۔

[ترمیم] محمود بن ارسلان

ارسلان کے بعد اس کا بیٹا محمود خوارزمی تخت پر بیٹھا۔ وہ ابھی کم سن تھا اس لئے ماں اس کی طرف سے حکومت کرنے لگی لیکن ارسلان کے بڑے بیٹے علاؤ الدین تکش کو یہ ناگوار گذرا کہ اس کے ہوتے ہوئے چھوٹا بھائی حکومت کرے۔ اس نے بادشاہ خطا سے معافی مانگی۔ بادشاہ خطا بھی خوارزم کے لالچ میں فوج لے کر محمود کے مقابلے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ اس مقابلے کے بعد محمود کی ماں گرفتار ہوگئی لیکن ترکان خطا نے علاؤ الدین کے ساتھ کوئی وفاداری نہ کی اور اس کے خلاف فوج کشی کردی۔ علاؤ الدین قلعہ بند ہوگیا اور بادشاہ خطا کو نقصان اٹھانا پڑا۔

[ترمیم] علاؤ الدین تکش

582ھ میں علاؤ الدین نے نیشا پور پر فوج کشی کی، اہل نیشا پور نے مدافعت کی جس پر علاؤ الدین کا محاصرہ ناکام ہوگیا اور وہ خوارزم واپس آگیا۔ لیکن 583ھ میں علاؤ الدین نے نیشا پور پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد علاؤ الدین کا اپنے بھائی سلطان شاہ نے جھگڑا ہوگیا جو اقتدار کے لئے تھا۔ علاؤ الدین نے آخری سلجوقی سلطان طغرل ثالث کو بھی قتل کردیا۔ علاؤ الدین نے سلطان شاہ کو نکال دیا اور وہ مرو چلا گیا۔

علاؤ الدین کا زیادہ وقت مخالفین سے جنگ میں اور ان کو قابو کرنے میں گذرا۔ اس میں آپس کی خانہ جنگیاں بھی تھیں اور وہ غوری و سلجوقی امراء سے بھی برسرپیکار رہا۔ 596ھ میں اس کا انتقال ہوگیا۔

[ترمیم] محمد بن تکش خوارزم

علاؤ الدین کےبعد قطب الدین محمد تخت نشین ہوا اور اپنا لقب علاؤ الدین ثانی رکھا۔ تخت نشینی کے بعد اپنے بھائی علی شاہ کو اصفہان سے طلب کیا اور خراسان کی حکومت عطا کی جس میں اس کے بعد جانے کے بعد نیشا پور میں ہندو شاہ بن ملک شاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کی علاؤ الدین کے خاندان سے مخالفت چلی آرہی تھی۔ ہندو خان نے خراسان پر حملہ کردیا۔ علاؤ الدین ثانی نے جعفر ترکی کے ماتحت ایک فوج روانہ کی۔ ہندو خان بھاگ گیا اور غیاث الدین کے علاقے میں پناہ لی جہاں اس کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ جعفر ترکی نے مرو میں داخل ہوکر ہندو خان کے اہل خانہ کو خوارزم روانہ کیا۔

محمد بن تکش علاؤ الدین ثانی کے تعلقات غوری خاندان نے کشیدہ چلتے رہے۔ فوج کشی بھی ہوئی۔ جنگ کے نتائج بھی کچھ بہتر نہ تھا لیکن اس سے بڑھ کر منگولوں کے حملے خطرناک ثابت ہوئے۔

محمد بن تکش نے اپنے عہد میں غزنی پر بھی قبضہ کرلیا اور ہمدان و جبل کے تمام علاقوں پر قابض ہوا۔ منگولوں سے بھی اس کی جنگ جاری رہی۔ 617ھ میں اس کا انتقال ہوگیا۔

[ترمیم] جلال الدین بنکرس

محمد بن تکش کے بعد اس کا بیٹا جلال الدین بنکرس ولی عہد بنا۔ اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو ولی عہدی سے خارج کردیا۔ منگول اس وقت خوارزم شاہی سلطنت کے تعاقب میں تھے اور ہر طرف تباہی و بربادی مچارہے تھے۔ خوارزم کے دریائے طبرستان کو عبور کرتے وقت ماژندران پر حملہ کیا اور وہاں کے سب قلعوں پر قبضہ کرلیا۔ جہاں جاتے تباہی و بربادی مچادیتے۔ ان کا ریلا مستقل بڑھتا چلا جارہا تھا۔ جلال الدین نے آذربائیجان اور خلاط پر فوج کشی کی۔ منگولوں کے حملے کی تاب نہ لاکر جلال الدین کوہستانی علاقے کی طرف نکل گیا لیکن جرائم پیشہ کردوں نے پکڑلیا اور ایک دشمن نے 626ھ میں قتل کردیا۔ اس کے قتل کے ساتھ ہی خوارزمی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔