کربلا کیا ہے ؟
وکیپیڈیا سے
کربلا کیا ہے؟ کربلا و عاشوراء تربیتی ،معنوی اور انقلابی درسگاہ ہے ۔ کربلا کوثروتسنیم وسلسبیل ہستی ہے ۔ حسینیوں کی زندگی ہمیشہ کوثرکربلاسے سیراب ہوتی ہیں۔ حسینی نہ صر ف خود اس کوثر عاشورا سے سیراب ہوتے ہیں بلکہ سراسرگیتی ،سراسر دنیاکے گوشے گوشے میں بسنے والے تشنہ کامان حق وحقیقت کوبھی کوثر بلاسے سیراب کرنے کے لیے دن رات ایک کردیتے ہیں۔ حسینیت :باران رحمت ہے تمام بشریت کے لیے ۔ کربلاکا :ایک ایک منظر،ایک ایک قدم ، ایک ایک کلمہ،ایک ایک لفظ ،باران رحمت کے قطرے ہیں۔ جو بشریت کی کھیتی کو سیراب کرکے سرسبزوشاداب کرنے کے لیے ہے عاشورا پوری عالمِ بشریت کے لیے پیغام ہے ۔ رہبر عظیم الشاء انقلاب اسلامی فرماتے ہیں۔ اگر ملت اسلامیہ سوچے کہ کیوں رسول خدﷺ کے پچاس سال بعد ایسا واقعہ پیش آیا کہ ایسے مسلمان جمع ہوتے جن میں حاکم ،وزیر، عالم ، قاری قرآن موجود تھے، یہ سب اس لیے جمع ہوئے کہ جگرکوشہ رسول ﷺ کو خاک وخون میں یکساں کردے۔انسان سوچے کہ ایسا کیوں ہوا؟ جگرگوشہٗ رسول :حسینؑ نے کس طرح ان سے مقابلہ کیا؟ جو ظاہر مسلمان تھے ، قاری تھے،نماز گزار تھے ،عالم تھے؟ کس طرح حسینؑ نے ان کے مقابلے میں شہادت پیش کی؟ قربانی دی، اسیر کو قبول کیا؟ دربدری کو برداشت کیا؟
حسینؑ نے ایسا کیوں کیا؟ہمیں کیا سبق ملتاہے ۔؟
دشمن چاہتے تھے اسلام میں تحریف کریں،اسلام کی غلط تفسیرکریںاور اسلام سے غلط استفادہ کریں ، اور اسلام میں بدعت ایجاد کریں۔ حسینؑ نے کربلابپاکی تاکہ ان بدعتوں کاخاتمہ کیا جاسکے ۔ اب اگرہماری عزاداریاں بدعتوں کے خاتمے کے لیے نہ ہوں۔
تو کیا درست عزاداری کہہ سکتے ہیں؟
بجائے اس کے کہ ہماری عزاداریوں کی وجہ سے بدعتیں ختم ہوں اگر ہم اپنی عزاداریوں میں بدعتیں ایجاد کریں تو اس صورت میں ہماری عزادری کیسی عزاداری ہوگی۔؟ رسول خدا ﷺ:اِذَا ظَھَرَ الْبِدْعَ فِي اُمَتِي فَلْيُظْھِرِ الْعَالِمُ عِلْمَہ اگر میری امت میں بدعتیں پیداہوجائیں تو عالم کے لیے واجب ہے کہ اپنے علم کو ظاہرکرے۔ تاکہ وہ بدعتیں ختم ہوجائیں۔(اصول کافي ج١ص٥٣) حسینؑ نے : مسئولیت کا احساس کیا اور اموی بدعتوں کے خاتمے کے اپنے علم کےمطابق قیام کیا۔ ہم کیسے حسینی ہیں کہ ہماری حسنیت میں بدعتوں کے خلاف قیام کا کوئی برنامہ نہیں ؟ امام حسينؑ:اہل بصرہ کے خط میں لکھا: میں خداکی کتاب اور پیغمبرکی سنت کی طرف دعوت دیتاہوں کیونکہ رسولؐ کی سنت کو نابود کیا جارہاہے اور بدعت کو زندہ کیا جارہاہے ۔ حسنیت یہ ہے کہ جو بھی دین کی بنیادوں کو لوگوں کے اسلامی عقیدوں کو سست کرکے ان میں جاہلیت کو زندہ کرنا چاہے تو حسینی انکے مقابلے میں قیام کرے۔ اس وقت حسینیوں کو چاہئیے کہ سیرت مصطفےٰؐ ومرتضےٰؑ کواپنا لیں اس طرح سے ہی بدعتوں اور جاہلیت کا مقابلہ کیا جاسکتاہے ۔ امام خمینی:نے مصطفوی ومرتضوی سیرت پہ عمل کرتے حسینی قیام کیا اور ے ایک خطے کو مسلمانوں کو حسینت کا راستہ دکھادیا اور انہیں جاہلیت اور یذیدیت سے نجات دلادی۔ ہمیں انکی سیرت وسنت کامطالعہ کرنا ہوگا۔ اور انکے نقوش سیرت کو اپنا کر اپنے معاشرے کے لوگوں کو حسینیت کی دعوت دینی ہے ۔ امام خمینی:فرماتے ہیں:آج کی دنیامیں اسلام سے زیادہ کوئی اور چیز غریب نہیں ، اسے نجات دینے کے لیے قربانیوں کی ضرورت ہے ۔ دعا کیجئے کہ میں بھی اسلام پہ قربان ہوجاؤں۔ حسینی ہیں تو ہر چیز سے زیادہ اسلام عزیز ہونا چاہئیے ۔ کیونکہ حسینؑ کوسب سے زیادہ اسلام عزیزتھا۔ حسینؑ نے سب کچھ اسلام پہ قربان کردیا۔ اسی لیے امام راحل نے فرمایا کہ : اسلام پر ہرچیز قربان کی جاسکتی ہے ، مگر اسلام کو کسی چیز پر قربان نہیں کیاجاسکتا۔ جی ہاں : امام راحل نے یہ حسینؑ سے سیکھا: حسینؑ نے اپنا گھر ،اپنی اولاد، اپناناموس ، اپنی ہستی اور کل دارائی کو اسلام کے لیے قربان کردیا۔ ان کا ن دین محمد۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ سوچیں کہ :ہم حسینی ہیں، ہم کیا کچھ اسلام کے لیے پیش کرسکتے ہیں؟ ہمیں :وقت نکال کراسلام کو سکھناہوگا۔ ہمیں:اسلام کو سیکھ کر سمجھنا ہوگا۔ ہمیں وقت نکال کر اسلام کو سمجھ کر پہلے اسلام کو اپنانا ہوگا۔ پھر ہمیں : اپنے کردارسے ثابت کرناہوگاکہ ہم نہ صرف گفتار میں حسینی ہیں بلکہ ہم کردار میں بھی حسینی ہیں۔ پھر ہمیں : دوسروں کے سامنے اسلام کو پیش کرنا ہوگا۔ اور ہمیں اس قابل ہونا چاہئیے کہ ہم اسلام کو بیان کرسکیں اور اس پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات دے سکیں۔ ہمیں ایسا بننا ہوگاکہ ہم اسلام کی حقانیت کو واضح کرسکیں۔ تب ہم حسینی ہیں ،اورواقعی عزادارہیں ورنہ آپ خود سے پوچھیں کہ کیوں میں عزادارہوں: میں نے کیا کھویاہے کہ عزادار ہوں؟کس لیے عزاداری کروں؟
ہمیں اسلام کے لیے عزاداری کرنی ہے ۔
آج صورت حال یہ ہے کہ ہم عزادار ی کرتے ہوئے جب خود سے پوچھتے ہیں کہ کیا میں واقعی عزادار ہوں ؟ تو اندرسے جواب منفی میں آتاہے میں عزاداری تو کرتاہوں مگر خود کوعزادار نہیں پاتا۔ میں بناوٹی عزادار ہوں۔میں اپنے اندر عزاء کی کیفت نہیں پاتا۔ سوچیں کہ :ہم کیوں حقیقت میں عزادار نہیں ہے ۔؟ اس لیے کہ ابھی تک صحیح معنی میں ہمیں حسینؑ اور حسینیت سے آگاہی نہیں ملی ہے ۔ ہمیں حسین شناسی اور حسنیت شناسی کے لیے وقت نکالنا ہوگا۔ اور برنامہ ریزی کرنا ہوگی۔اور سرمایہ خرچناہوگا۔
سرمایہ دار حضرات اپنا سرمایہ وہاں نہ لگادیں جہاں معاشرے میں مسلمان نسل کی تربیت کے لیے کام نہیں ہوتا۔
آپ اپنا سرمایہ مسلمان نوجوانوں کی تربیت پہ لگادیں ۔ سوچیں کہ ہم کس حد تک روح عزاداری سے دور ہیں ؟ کربلا آزادی سکھانے اور آزادی دلانے کے لیے وجود میں آیا؛ آزادی یہ نہیں کہ انسان کا جسم آزاد ہو۔اعضاوجوارح آزاد ہو۔ کھانے پینےمیں ،گھومنے پھرنے میں آزاد ہو۔ یہ آزادی تو جانوروں کی آزادی ہے ۔ اصل آزادی یہ ہے کہ انسان کی فکر آزاد ہو۔قلم آزاد ہو انسان اپنے عقیدے میں ازاد ہو۔ معنوی ذلت وپستی سے آزاد ہو۔ انسان کی شرافت ، انسانیت آزاد ہو۔ امام حسينؑ’’مَوْت فِي عِزٍّ خَيْر مِنْ حَيَا ۃ فِي ذُلّ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہترہے(مناقب ابن شہر آشوب ج٤ص٦٨) اگر عزت وناموس وشرف ووقار کی آزادی مقصود نہ ہوتی تو حسینؑ اس دن بیعت کرکے عزیزترین انسانوں کی جان بچاتے پاک ترین وباحیاترین مخدرات عصمت وطہارت کے پردے بچالیتے ۔ الا اِنّ الدعی ابن الدعی قد۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ آزادی یہ ہے جو حرکوملا:اس نے خود کو جہنم سے آزاد کیا اور اپنی شہادت سے جنت کو خرید لیا۔ حسینؑ نے تصدیق کی کہ اب حر، آزادہے : (بحارالانوارج٤٥ص١٤) انت حرٗ کما سَمَّتکَ اُمُّکَ ، انتَ حرٗ فی الدنیا وانت حرٗ فی الاٰخرۃِ خداوند:وللّٰہ العزَّۃُ ولرسولِہٖ وللمومنینَ: عزت تو خدا کے لیے ہے اس کے بعد رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے ۔ عزت دار لوگ کبھی بھی اپنی ذلت وپستی کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتے ۔ عزت دار لوگ کبھی کبھی حقیر اور پست کاموں کوانجام نہیں دیتے۔ عزت دار لوگ اپنی شرافت وعزت کی حفاظت کے لیے کبھی اپنی جانوں سے گذر جاتے ہیں۔ ایک مومن کویہ حق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ذلت وپستی میں ڈالدے ۔ حدیث ہے : خداوند مومن کو کبھی ذلیل ہونے نہیں دیتا۔ امام صادقؑ:اِنَّ اللّہَ فَوَّضَ اِلَي الْمُومِنِينَ اَمْرَہُ کُلَّہ وَ لَم يُفَوِّ ض اِلَيہِ اَنْ يَکُو نَ ذَلِيلاَ‘‘خدانے مومن کے تمام کاموں کو اس کے ذمے سونپاہے ، لیکن اسے ذلیل ہونے کاحق نہیں دیاہے (ميزان الحکمۃ ج٢ ص١٨٨) مومن کی عزت اس میں ہے کہ وہ اپنے دین میں پہاڑ سے زیادہ مضبوط رہے ، کہ کسی بھی قیمت پہ دین اس سے نہیں چھن سکتا مومن کی عزت اس میں ہے کہ دوسروں کےمال ومتاع کی جانت لالچ کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ یہاں تک کہ اسے نماز کے لیے پانی حاصل کرنے میں ذلت وخواری کا سامنا ہوتو اس وقت تیمم کرنی چاہئیے کیونکہ خداوند نہیں چاہتا کہ مومن ذلیل ہو۔اور اس کی آبرو ریزی ہو۔ بنی امیہ چاہتے تھے کہ آل محمد علیھم السلام کو بیعت کرنے پر مجبور کریں اور اپنی طاقت کارعب جماکے انہیں یزید کے سامنے جھکا کے انہیں ذلیل کریں ، مگر آل محمد نے قبول نہیں کیا: حسینؑ: نے فرمایا مثلی لایبایع مثل یذید یہ ننگ ہے عار ہے پستی ہے ذلت ہے ۔ آل محمد کہاں اور ذلت کہاں ۔ اُعْطِيْکُم بِيَدِي اِعطَائَ الذَلِيلِ ولااَفِرُّ فرار العبید‘‘ میں ذلیلوں کی طرح اپنا ہاتھ یذید کے ہاتھ میں نہیں دے سکتا اور نہ ہی غلاموں کی طرح بھاگ سکتاہوَ (ارشاد شيخ مفيد ج٢ص٩٨) حسینیت یہ ہے :کہ اس میں نہ تو ذلت ہونہ ہی غلامی۔ حسینی وہ ہے :جو نہ تو کسی قسم کی ذلت کو قبول کرے اور نہ ہی کسی کی غلامی کرے ۔ حسینی :نہ تو شیطان کا غلام ہوتاہے ، نہ ہی کسی طاغوت کا۔ حسینی نہ تو نفس امارہ کے غلام ہوتے ہیں اور نہ ہی ، زن و زر وزور وتزویر کے غلام ہوتے ہیں۔ کربلاہمیں شہادت طلبی کا درس دیتاہے ۔ بہت سے انسان کوشش کرتے ہیں کہ اپنی جان کی قربانی پیش کریں اس لیے وہ شہادت کااستقبال کرتے ہیں ، ایسی بلند روح کے مالک افراد دنیوی تعلقات سے دور ہوتے ہیں انکے اس جذبے کو شہادت کہتے ہیں۔ شہادت انسان کی زندگی کاوہ بہترین معاملہ ہے جو وہ خداکے ساتھ انجام دیتا ہے ۔ درواقع انسان اپنی جان دے کرہمیشہ کے لیے جنت میں جاتاہے دین کے حقیقی پیروکار ایسی روح اور ایسے جذبے کے مالک ہوتے ہیں اس لیے وہ راۃ اسلام میں اپنی جان کی قربانی دینے سے نہیں کتراتے ہیں۔ عاشورامیں اباعبداللہ الحسینؑ کے ساتھ ایسی روح رکھنے والے باوفا اصحاب وانصار واہل بیت موجود تھے۔ علی اکبر کا قول معلوم ہے :اگرہم حق پر ہیں تو پھر ہمیں موت کا کیا ڈر ہے ۔ تیرہ سالہ قاسم ابن الحسن فرماتے ہیں کہ موت میرے نزدیک شھد سے زیادہ شیرین ہے ۔ کربلامیں ہرایک نہ صرف یہ کہ موت سے نہیں ڈرتا بلکہ حمایت امام زمانہ اباعبداللہ الحسینؑ میں اور حمایت اسلام کی پاداش میں ملنے والی موت کا عاشقانہ استقبال کرتاہے ۔ کربلاکا ہرمجاہد شہادت کے لیے تڑپتاہے ، بے قرار ہے ۔ عاشورا نے محبین اہل بیت کے لیے شہادت کاکلچر زندہ کیا۔ ہمارے سبھی اماموں نے اس کلچر کو اپنے دوستوں اور پیروکاروں میں پھیلاتے رہے۔ دنیامیں آج بھی حسین ابن علیؑ کے چاہنے والے شہادت کی آرزو لیکر زندہ ہیں۔ حسنیت میں شہادت ،مطلوب ومعشوق ہیں۔ شہادت ہے مقصود ومطلوب مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی تیرو سنان وخنجر وشمشیرم آرزوست بامن میا کہ مسلک شبیرم آرزوست امام خمینیؒ : فرماتے ہیں:خط شہادت خط آل محمد وعلی ہیں، یہ افتخار شہادت خاندان نبوت وولایت سے انکی ذریت اور انکے پیروکاروں کوارث میں ملاہے۔ اس مقام پہ وہی نائل ہوسکتاہے ، جو تمام جسمانی ومادی زندگی کے ساتھ رشتہ ناطہ توڑدے۔اور حیاتِ برتر کے ساتھ عشق ، اسے مشتاق شہادت بنادے۔ مادی رکاوٹوں کو دور کرنے کے بالاترین ایمان کی ضرورت ہے ، شہادت خدااور بہشت تک پہنچنے کا نزدیک ترین راستہ ہے شہادت وہی پیش کرسکتا ہے جو عاشق خداہو۔ گردن نہد بہ سلسلہٗ غم اسیر عشق تیربلابہ جان بخرد مبتلای دوست ان کان دین محمدؐ۰۰۰۰۰۰۰۰ جان شبنم است ،درپی خورشید پر کشد گر بشنود نوای دل از نینوای دوست ترکت الخلق طرّا فی ھواک: شھید اس لیے تو زندہ ہے کہ وہ عاشق خدا ہے ۔ برلوح دہر زندہ جاوید می شود آن کس کہ عاشقانہ بمیرد برای دوست ارزندہ تر زگوہر نایاب می شود جانی کہ خاک گردد وافتد بہ پای دوست شھید خود متبرک ہے، خاک قبر بھی متبرک ہے۔ بوسیدنی است سنگ مزار شھید عشق بوئٰیدنی است تربت پاک گدای دوست اس منزل فنا تک آنے کے لیے بالاترین معرفت کی ضرور ہے جنہیں ملاقات خداوندی کی معرفت ہو، حیات اخروی کی معرفت ہو۔اورموت کی حقیقت سے آگاہی ہو جنہیں معلوم ہو کہ اسلام کے لیے کتنی قیمت دینی چاہئیے ؟ دین خدا عزیزتراست از وجود ما این دست وپا وچشم وسروجان فدای دوست ایسے عاشقان خدا ہی دین اور عقیدوں کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ چڑجائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر لیکن یذیدیوں کی اطاعت نہ کرقبول یہ سب روح شہادت طلبی کی وجہ سے ہے ۔ کربلاباطل کے خاتمے کے لیے وجود میں آیا۔ تاریخ بشریت اور مکتب الٰہی میں ہمیشہ حق وباطل کے درمیان جنگ جاری تھی اور آج بھی ہے ۔ فکری اور عقیدتی اعتبار سے ہویا اخلاقی اعتبارسے۔ اخلاقی اعتبار سے ہو یا پھر سیاسی لحاظ سے ۔ انبیاء واوصیاء نے پوری تاریخ میں باطل سے مقابلہ کیا۔ سنت الہی یہ ہے کہ حق کی طاقت سے باطل کو نابود کیا جاتا ہے خداوند:بَل نقذِفُ بالحقِّ علیٰ الباطِلِ فَیَدمَغُہٗ فاذاھوَ زاھِقٗ ہم تو حق کو باطل کے سرپہ دے مارتے ہیں اور اس کے دماغ کو کچل دیتے ہیں ، اور وہ تباہ وبرباد ہوجاتاہے ۔ (انبیاء 18) خداحق ہے اور شرک باطل ، اسلام حق ہے اور کفر ونفاق باطل۔ رسول خداؐ اور ائمہ معصومین حق ہیں اور انکے مخالفین باطل ہیں حکومت اسلامی حق ہے ، حکومت طاغوتی باطل ہے ، اما حسین :نے باطل کے مقابلے میں ڈٹ جانا سکھا دیا۔ جہاں بھی باطل اپنا چہرہ دکھادیں وہاں حسینیوں کا چاہئیے کہ باطل کے مقابلے میں خاموش نہ رہیں۔ بلکہ کوشش کریں کہ حق کے ذریعے باطل کو نابود کردیں۔ یہ اس وقت ہوگا جب ہم حق شناس ،حق جو ،حق محور،حق گو اور حق دار ہوں ، اگر ہم خودحق شناس نہ ہوں۔حق جو نہ ہوں حق محور نہ ہوں تو کبھی بھی یہ امید نہ رکھیں کہ ہم حق کے ذریعے باطل کو دفع کرسکیں گے ۔ تو حید واسلام وقرآن ونبوت وامامت وولایت حق ہیں تو ہمیں پہلے اس سے آشنائی ہونی چاہئٰے ، پہلے موحد بنین، توحید شناس ،توحیدپرست بن جائیں۔ پہلے قاری قرآن ، پھر عامل قرآن بنیں پہلے ولایت شناس بنیں پھر عاشق ولایت بنیں ۔ تب ہم انکے ذریعے اسلام کو معاشرے کی روح میں زندہ کرسکتے ہیں۔ پھر ہم باطل کو سرنگوں کرسکتے ہیں۔ ہمیں عاشق ولایت ہونا چاہئیے: حجر بن عدی کی شہادت کا وقت آیا ۔ انکے ساتھ انکے چھا ساتھیوں کی بھی گردنیں اڑانی تھی، حجربن عدی جلاد سے کہتا ہے کہ اگر میرے بیٹے ہمام کی بھی قتل کرنا ہی ہے تو پہلے اسے قتل کردو۔ اس سے پوچھا کہ کیوں ایسا کیا جائے ؟ کہا:اس لیے کہ مجھے ڈرسے کہ اگر میرا بیٹا میری گردن پر شمیشر دیکھے تو شاید ڈرجائے اور ولایت علیؑ سے ہاتھ اٹھالے۔ حجر بن عدی وہ ہستی ہے ،جس کے بارے میں رسول خداﷺ نے فرمایا:اے حجر تو دوستی علیؑ کی راہ میں مارا جائے گا۔ ہاں جب تیراسر زمین پہ گرے گاتو پانی کا چشمہ جاری ہوگا، اور تیر سر دھولے گا۔ جب حجر کا سرتن سے جداکیا گیا اور سرزمین پہ گر ا تو وہیں چشمہ جاری ہوا اور انکے سرکو دھوڈالا۔ ہم کیوں حق ناآشناہیں۔َ؟ اس کی وجہ وہی ہے جو پہلے عرض ہوا کہ ہم نے اسلام کو زندگی کے ایک چھوٹے سے شعبے کے طور پر اپنالیے ہیں ، نہ کہ اسلامی زندگی کو۔ جس طرح اسکو ل کی کلاسوں میں مختلف پیریڈ ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ہماری روزمرہ زندگی کے پیڑیڈ ہیں۔ جس طرح اسکو ل میں ایک پیریڈ اسلامیات کا ہوتاہے ۔ اسی طرح ایک پیریڈ ہماری روزمرہ زندگی کے امور میں اسلامیات کا ہوتا ہے ، ہم نے کیوں مکمل اسلام کو نہیں اپنایا؟ اس لیے کہ ہماری اکثریت نے اسلام کو مکمل نہ تو پڑھا ہے نہ سنا ہے نہ ہی سیکھا ہے ۔ ہماری زندگی میں اسلامیات کا جو پیریڈ ہے اس میں ہمارے والدین ،یا اساتذہ یا مولانے ، اسے چند چیزوں کے سکھانے پہ اکتفا کردیتے ہیں۔ اسلامیات کی پہلی کلاس میں چندچیزوں کے صرف نام بتادئیے جاتے ہیں۔مثلاً اصول دین کتنے ہیں : پانچ اول توحید۰۰۰۰دوم۰۰۰سوم۰۰۰چہارم۰۰۰۰ فروع دین کتنے ہیں؟ دس۔ اول نماز۰۰دوم روزہ۰۰۰۰سوم خمس ۰۰۰۰۰ یہاں اسلامیات کی پہلی کلاس ختم ہوتی ہے۔ اسلامیات کی دوسری کلاس میں ،اساتذہ یا معلم ہمیں سکھاتا ہے کہ اول توحید : یعنی اللہ ایک ہے ۔ یہ نہیں سمجھائے گا کہ کس طرح اللہ ایک ہے ؟ دوہوتے تو کیا ہوتا؟ خدا کے ایک ہونے یا دو ہونے سے ہمار زندگی پہ کیافرق پڑتاہے؟ توحید کا مفہوم کیاہے؟ توحید کی قسمیں کون سی ہیں؟ ان سے ہماری زندگی پہ کیا اثر پڑتاہے ؟ دوم عدل: اللہ انصاف کرنے والاہے۔ یہ نہیں سمجھائے گا کہ انصاف کیاہے ؟ خداکیوں عادل ہے؟ خداکے عادل ہونے کا مطلب کیا ہے ؟
خدا کی عدالت کا ہماری زندگی سے کیاتعلق ہے؟
عدالت او رمساوات میں کیافرق ہے؟ سوم نبوت : ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی برحق ہیں۔ یہ نہیں سمجھائے گاکہ نبی کے آنے کی ضرورت کیا ہے؟ کیا انبیاء معصوم ہیں؟ کیوں معصوم ہیں؟ کیا ضرورت ہےکہ معصوم ہوں؟ مفہوم عصمت کیا ہے؟ کیا درجات ہیں، ؟ وغیر چہارم امامت: بارہ امام برحق ہیں۔ یہ نہیں سمجھائے گاکہ امامت کا مفہوم کیا ہے؟ ہم کیوں امامت کے قائل ہیں؟ شرائط امامت کیا ہیں؟ امام کیوں بارہ ہیں؟ آخری امام کیوں پردہ غیب میں ہیں؟ غیبت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ فلسفۂ غیبت کیا ہے؟ ظہور کب ہوگا، کن شرائط کے ساتھ ہوگا؟ امام کے مقابل ہماری ذمہ داریاں کیاہیں؟ پنجم معاد: قیامت کا آنا برحق ہے۔ یہ نہیں سمجھائے گاکہ :قیامت کیوں ضروری ہے ،؟ قیامت کی دلیلیں کیاہیں؟ قیامت کی حقیقت کیاہے؟ برزخ کیا ہے ؟ قبرکیاہے؟ میزان کیا ہے؟ صراط کیاہے؟ جنت کیا ہے ،؟ دوزخ کیاہے؟ شفاعت کیاہے؟ وغیرہ۔ اب اس کے بعد کہیں کوئی تیسری کلاس شروع نہیں ہوتی۔ تیسری کلاس: میں وضو ، نماز وغیرہ ہے ، جسے اکثر نوجوان دوسروں سے دیکھ کر یا خود کچھ دوسروں سے پوچھ کر کچھ دوسروں کو دیکھ کر انجام دیتے ہیں۔
ایسی نمازوں کی جو حالت ہے وہ خدا جانتا ہے ۔
بڑے عالموں سے لیکر کچھ نہ جاننے والے نماز تک سے نوجوان سوال کرکے یا انہیں دیکھ کرعمل کرتے ہیں۔ مختلف لوگو نے مختلف چیزیں سکھادیں ہیں ۔ یہ نوجوان ظاہر نماز گزارو متدین ہیں لیکن اسلام شناس نہیں ۔ ہمیں اپنی اولاد اور پنے معاشرے کے نوجوانوں کے اسلامیات کی تیسری چوتھی پانچویں اور اس سے بھی آگے کی کلاسوں کا بندوبست ہمیں اولاد اورنوجوانوں کو اسلامی اصول دلیل وبرہان قاطع کے ساتھ سکھانی ہے ۔ اسلامی فروع کو صحیح اسلامی متون سے یاد کرانی ہے ۔ ہمیں اپنی اولاد اور نوجوانوں کو اس طرح سے اسلام شناس بنانا ہے کہ وہ اپنے مکتب ومذہب کے بارے میں ہونے والے تمام سوالوں کے جوابات دے سکیں۔ کہیں کوئی کسی اصول یافروع کے بارے میں سوال کرے تو ایسا نہ ہو کہ نوجوان کہے کہ میں نہیں جانتا۔ واجب ہے کہ انسان تمام اصول دین کو عقلی ونقلی دلیلوں سے اپنے لیے ثابت کرے ۔ اور عقیدہ بنالے ۔
اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے۔
کربلا قرآن وسنت کوزندہ کرنے کے لیے وجود میں آیا ۔ عاشوراء اسلام کی حیات نوعطا کرنے کا نام ہے ۔ کربلا: ایک ایسی حرکت ہے جس نے دین اسلام کو خدا کے احکام اور اس کی سنت کے مطابق زندہ کیا۔ کربلانے نماز کو زندہ کیا۔زکاۃ کو ،حج کو امربمعروف اور انہی ازمنکر کو زندہ کیا، امر بہ معروف اور نہی ازمنکر دوایسے فریضے ہیں جو تما م مسلمانوں پہ واجب ہے ، اور یہ آج اور کل کے اجتماع کا ایک اہم مسئلہ ہے ۔ عاشوراء والوں کا ایک مقصداحیاء امر بمعروف ونہی ازمنکر تھا ، امام حسین ؑ اُریدُ اَن آمرَ بالمعروف وانہی عن المنکر: میں چاہتاہوں کہ امر بہ معروف کروں اور نہی از منکر کروں ۔ معروف نیک اورپسندیدہ کاموں کوکہتے ہیں۔جس کے کرنے کا حکم خداوند سبحان نے دیاہے۔ جبکہ منکر ہربرے اور ناپسند کام کا نام ہے ۔ جس کے کرنے کا حکم شیطان دیتاہے ۔ تمام اچھائیاں اوربرائیاں : کبھی فردی مسائل سے مربوط ہیں۔ اور کبھی اجتماعی وسیاسی امورسے مرتبط ہیں۔ خدانے ان دوحیاتی فریضوں کی انجام دہی پر کافی زوردیاہے۔ امربمعروف کے کچھ مرحلے ہیں۔ کربلامیں اباعبداللہ الحسینؑ نے ان تمام مرحلوں سے کام لیا ۔ اباعبداللہ الحسین :اَللّٰہُمَّ اِنِّي اُحِبُّ الْمَعْرُوفَ وَاُکْرِہُ الْمُنْکَرَ خداوندا:میں معروف کو دوست رکھتاہوں او منکر کو ناپسندکرتاہوں۔ اباعبداللہ الحسین :نے معاشرے میں امر بہ معروف اور نہی ازمنکر کو اسلامی معاشرے میں نافذ کرنے کی ہرممکنہ کوشش کی ۔ ہماری ذمہ داری بھی : یہی ہے کہ امام حسینؑ کی طرح زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی اصولوں کے مطابق معروف کوپھیلانے اور منکر ات کو روکنے کی کوشش کریں۔ امربمعروف اورنہی ازمنکر کو پوری دنیامیں نافذ کرنے کے لیے بھرپور اقدام کریں۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ہم خودپہلے امر بمعروف اور نہی ازمنکر کو اپنے اوپر نافذ کریں۔ پہلے خود نیکیوں اسے آشنا ہوکر ان پر عمل کریں ۔ برائیوں کو پہچان کر ان سے بچیں۔ جب ہم خود منکرات میں مبتلاہیں تو کیسے ممکن ہیں کہ ہم امر بہ معروف کریں؟ ہم اپنے گھروں کے ماحول کو دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا ہم منکرات سے پاک ہیں۔ خرابی کے تمام وسائل ہم اپنے گھروں میں رکھتے ہیں ۔ کربلا:پیغمبرﷺ کی سنت کو زندہ کرنے کے لیے وجود میں آیا بنی امیہ کی کوشش تھی کہ پیغمبر اسلامﷺ کی سنت کو مٹا کر زمانہٴ جاہلیت کے نظام کو جاری کیا جائے۔ اس کے مقابلے میں سنت مصطفی ومرتضیٰ کوزندہ کرنے کے لیے حسینؑ نے عاشوراء بپاکی ۔انماخرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی واسیرَ بسیرۃ جدی وابی ہم کس مقصد کے لیے عزاداری کرتے ہیں؟ کیسے ممکن ہے کہ اصلاح کا کوئی برنامہ نہ ہواور عزادار ہو۔؟ اگر ہم امربمعروف نہیں کرتے تو ہمیں عزاداری کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے ، کیونکہ ہماری عزاداری روح انقلاب حسینی کے ساتھ ہماہنگ نہیں ہے ۔ اگر چاہے کہ عزاداری کریں تو روح عاشوراسے ہماہنگ ہونا پڑیگا۔ اگر امربمعروف کرنا چاہیں تو پہلے خود کو ان پر عمل کرنا ہوگا ۔ کیوکہ جسے :اپنی اصلاح کاکوئی خیال نہ ہوتو دوسروں کی اصلاح کیا کریگا۔؟ کربلا:باطل کے چہرے سے نقاب کو الٹنے کیلیے وجود میں آیا۔ بنی امیہ اسلام کا لباس اوڑھ کر لوگوں کو دھوکہ دے رہے تھے وہ اسلام ناب محمدی کی جگہ یذیدی اسلام کو رائج کرن چاہتے تھے۔ وہ سنت رسولؐ کی جگہ سنت معاویہ ویذید کو رائج کرنا چاہتے تھے۔ واقعہ کربلا نے ان کے چہرے پر پڑی اسلامی نقاب کوالٹ دیا،
تاکہ لوگ ان کے اصلی چہرے کو پہچان سکے۔
واقعہ کربلا نے انسانوں و مسلمانوں کو یہ درس دیا کہ ہمیشہ ہوشیار رہیں اور دین کالبادہ پہنے فریبکار لوگوں سے دھوکہ نہ کھائیں۔ کربلا:حقیقی اور ظاہری مسلمانوں کے فرق کو نمایاں کرنا: آزمائش کے بغیر سچے مسلمانون، معمولی دینداروںا ور ایمان کے جھوٹے دعویداروں کو پہچاننا مشکل ہے۔ اور جب تک ان سب کو نہ پہچان لیا جائے،
اس وقت تک اسلامی سماج اپنی حقیقت کا پتہ نہیں لگاسکتا۔ کربلا ایک ایسی آزمائش گاہ تھی جہاں پر مسلمانوں کے ایمان، دینی پابندی و حق پرستی کے دعووں کوپرکھا جا رہا تھا۔
حسینؑ:الناس عبیدُ الدینا والدین لعق علیٰ السنتہم یحوطونہ مادرّت معائشہم فاذا محصوا بالبلاء قل الدیانون۔ لوگ دنیا پرست ہیں جب آزمائش کی جاتی ہے تودیندار کم نکلتے ہیں۔ حسین: عزت وآزادی کا مظہر ہے۔ حسین: کے سامنے دو راستے تھے،. ذلت کے ساتھ زندہ رہنا اور عزت کے ساتھ موت کی آغوش میں سوجانا۔ حسین: نے ذلت کو پسند نہیں کیا اور عزت کی موت کو قبول کرلیا۔ فرمایا: ابن زیاد نے مجھے تلوار اور ذلت کی زندگی کے بیچ لا کھڑا کیا ہے، لیکن میں ذلت کوقبول کرنے والا نہیں ہوں۔ حسین: کی تحریک طاغوتی طاقتوں کے خلاف تھی۔
اس زمانے کا طاغوت یزید بن معاویہ تھا۔
حسین: نے رسول ﷺ کے قول کو پیش کیا ۔ من رأى سلطانا جائرا مستحلّا لحرماللَّه ناكثا لعهداللَّه مخالفا لسنة رسولاللَّه ﷺ يعمل فى عباداللَّه بالاثم والعدوان فلم يغيّر عليه بفعل و لاقول كان حقّا علىاللَّه ان يدخله مدخله اگر کوئی ایسے ظالم حاکم کو دیکھے جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کررہا ہو، جو عہدالہی کی پرواہ نہیں کرتا سنت رسولؐ کی مخالفت کرتاہے۔ لوگوں کے درمیان گناہ اوردشمنی پھیلاتاہے۔ پس وہ شخص اپنے قول وفعل سے اسے روکنے کی کوشش نہ کرے تو اسے اللہ کی طرف سے اسے سزا ملے گی ، کہ خداوند اسے اسی جگہ ڈالے گا جہاں اس ظالم کو ڈالے گا۔ امام صادق:من مدح سلطانا جائرا و تخفف و تضعضع له طمعا فيه كان قرينه فى النار; اگر کوئی کسی ظالم حاکم کی مدح کرے اور لالچ کی وجہ سے اس کے سامنے فروتنی دکھائے تو جہنم میں بھی وہ انسان اسی ظالم کا ساتھی ہوگا کیا ہم طاغوت شناس ہیں،دشمن شناس ہیں؟ کیا ہم طاغوت سے بے زار ہیں؟ کیا ہم طاغوت سے نفرت کرتے ہیں؟ یا بظاہر امریکہ مردہ باد ، یذیدیت مردہ باد ہے ۔ عملی میدان میں دیکھتے ہیں تو طاغوت کے گُن گاتے ہیں۔ کیا ہم نہیں کہتے ، اِنی سلم لمن سالمکم وحرب لمن حاربکم ؟ آیا ہم حسینؑ کے دشمنوں کے واقعی دشمن ہیں ؟
یاصرف ظاہرا دشمنی کا نعرہ ہے ، عمل میں انکے ساتھ ایک ہیں۔؟
وضع میں تم ہونصاری تو تمدن میں ہنود یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائے یہود کہیں ہم اہل بیتؑ کے دشمنوں کے دوست تو نہیںَ؟ کہیں اہل بیتؑ کے دوستوں کے دشمن تونہیں؟ کہیں ہم وہ کام تو نہیں کرتے جو اہل بیت کے دشمنوں کا کام ہے کہیں ہم:ہمارا کوئی عمل اہل بیت کی ناراضگی کا باعث تو نہیں؟ کربلا ہمیں دین پر ہر چیز کو قربان کرنے کا درس دیتاہے ۔ دین کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اسے بچانے کے لئے اپنے ساتھیوں ،بھائیوں اور اولاد کو بھی قربان کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں شہادت کے جذبے کو زندہ رکھنا: جس چیز پر دین کی بقا، طاقت، قدرت و عظمت کا دارومدار ہے وہ جہاد اور شہادت کا جذبہ ہے۔ امام حسین نے یہ خونی قیام کیا ، تاکہ دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ دین فقط نماز روزے کا ہی نام نہیں بلکہ اسلام کی بقاکے لیے جان دینا بھی اسلام ہے ۔ جہاں اسلام پر عمل کرنافرض ہے وہاں اسلام کی حفاظت بھی فرض ہے جہاں نماز پڑھنا ضروری ہے وہاں نماز کو بچانا بھی واجب ہے۔ اس مقصد کے لیےنوجوانوں میں جذبۂ شہادت کو زندہ رکھنا ضروری ہے ان کان دین محمدٍ : سے یہ درس لینا ہے ۔ ہمیں اپنے ہدف پرآخری دم تک باقی رہنا: جو آخری دم تک اپنے ہدف پر باقی رہتا ہے وہ اس کے عقیدہ کی مضبوطی کی دلیل ہے۔ حسینؑ نے عاشورا کی پوری تحریک میں یہی کیا ،کہ اپنی آخری سانس تک اپنے ہدف پر باقی رہے اور دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے۔ کربلانے ہمیں درس دیا کہ حریم مسلمین سے تجاوز کرنے والوں کے سامنے ہرگز نہیں جھکنا چاہئے۔ یہ درس کربلا ہے کہ قیام حق کیلےہر طبقہ سے مدد لینی چاہئیے بچوں اورنوجوانوں سے ، جوانوں اور ،بوڑھوں سے ، مردوں اور خواتین سے ، تاکہ ہدف میں کامیابی حاصل ہو سکے۔ حسینؑ کے ساتھیوں میں جوان، بوڑھے، سیاہ سفید، غلام آزاد سبھی طرح کے لوگ موجود تھے۔ کیا ہم تمام طبقات سے ہماہنگ ہوکر کر دین کے لیے کام کرتے ہیں کربلانے ہمیں درس دیا کہ افراد کی قلت سے گھبرانا نہیں چاہئے : راہ حق میں افراد کی تعدا د کی قلت سے نہیں گھبرانا چاہئے۔“ اپنے ہدف پر ایمان رکھنے والوں کے ساتھ بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اپنے ساتھیوں کی قلت سے نہیں گھبراتے۔ ایسے لوگ کسی بھی قیمت پہ ہدف سے پیچھے ہٹنانہیں چاہئے۔ اگر حسین تنہا بھی رہ جاتے تب بھی حق سے دفاع کرتے ۔ اسی لیے آپ نے شب عاشور اپنے ساتھیوں سے فرمایاکہ
آپ سب جہاں چاہو چلے جاؤ یہ لوگ فقط میرے درپے ہیں۔
کربلا ،تنہا جہاد و شجاعت کا میدان نہیں ہے بلکہ سماجی تربیت و وعظ ونصیحت کا مرکز بھی ہے۔ حسین :نے شجاعت، ایثار و اخلاص کے ساتھ اسلام کو نجات دی ساتھ ساتھ لوگوں کو بیدار کیا اور ان کی فکری و دینی سطح کو بھی بلند کیا، تاکہ ملت اسلامیہ کی الہی تحریک نجات بخش بن سکے۔ کربلا تلوار پر خون کوفتح:کا اعلان ہے : کربلانے اس فکر کو غلط ثابت کیا کہ ہمیشہ تلوار کی فتح ہوگی۔ بلکہ مظلومیت کے اسلحے سے لیس ہوکر تلوار پر بھی فتح حاصل کی جا سکتی ہے ۔کربلانے ثابت کردیاکہ:مظلومیت بہت بڑا اسلحہ ہے ۔ مظلومیت یہ احساسات کو جگاکر واقعہ کو جاودانی بنادیتی ہے۔ کربلا میں ایک طرف ستمگروںکی ننگی تلواریں تھی اور دوسری طرف پاک باز ،پاک منش مظلوموں کی مظلومیت تھی۔ اگرچہ سب شہید ہو گئے۔لیکن ان کے خون اور انکی مظلومیت نے رنگ لایا: باطل کو رسوا کیا وہیں حق کو مضبوطی بھی عطا کی۔ مدینہ میں سید سجادؑ سے ابراہیم بن طلحہ نے کہاکہ کون جیتا اور کون ہارا ؟ فرمایا :اذا دَخل وقتُ الصلاةِ فاَذِّنْ وَاَقِم، تَعرِفْ مَنِ الغالب
نماز کے وقت ہوتو اذان واقامت پڑھو تومعلوم ہوگا کہ کون جیتاہے؟
سیدسجادؑ:اذان واقامہ ونماز کو حسنیت کی فتح بتا یا : حسینؑ کو فاتح سمجھنے والے اذان واقامۂ نماز میں کیا دلچسپی لیتے ہیں۔ کربلانے ہمیں درس دیا کہ: پابندیوں سے نہ گھبرائیں: ہر حال میں انسان کو اپنے عقید و ایمان پر قائم رہنا چاہئے۔
چاہے تم پر فوجی و اقتصادی پابندیاں ہی کیوں نہ لگی ہوں۔
حسینؑ پر تمام پابندیاں لگی ہوئی تھی لپ کوئی آپ کی مدد نہ کرسکے آپ کے پاس جانے والوں پر پابندی۔ نہر سے پانی لینے پر پابندی سب پابندیوں کے باوجود کربلا والے نہ اپنے ہدف سے پیچھے ہٹے اور نہ ہی دشمن کے سامنے جھکے۔ حسینت یہ ہے کہ:فوجی پابندیاں عاید ہوں تو فرزند عاشورا ہوں اور اگر اقتصادی پابندیاں ہوں تو فرزندرمضان ہوں۔ فوج اور اسلحہ کا زور ہوتو عاشورائیوں کی طرح بے پرواہ ہوکر لڑینگے اگر اقصادی پابندی ہو ہم فرزند رمضان ہیں روزے رکھیں گے۔ کیا ہم عاشورائی ہیں:؟ بھوک پیا س اور اسلحے سے بے پرواہوسکتے ہیں؟ کافر ہوتو شمشیر پہ کرتا ہے ببھروسہ مومن ہوتو بے تِیغ بھی لڑتا ہے سپاہی کربلاہمیں درس برنامہ ریزی دیتاہے؟ حسین ابن علیؑ نے اپنی پوری تحریک کو ایک مضبوط برنامے کے تحت چلایا۔ جیسے ،بیعت سے انکار کرنا، مدینہ کو چھوڑ کر کچھ مہینے مکہ میں رہنا، کوفہ و بصرے کی کچھ شخصیتوں کو خط لکھ کر انہیں اپنی تحریک میں شامل کرنے کے لئے دعوت دینا۔ مکہ، منیٰ اور کربلا کے راستے میں تقریریں کرنا وغیرہ۔ عاشورا کے قیام کا کوئی بھی جز بغیر تدبیر کے پیش نہیں آیا۔ عاشور کی صبح حسینؑ نے اپنے ساتھیوں کے درمیان جو ذمہ داریاں تقسیم کی تھیں وہ بھی ایک برنامے کے تحت تھیں۔ ان برنامہ ریزیوں سے حسینؑ اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ حسینی نہیں جو برنامہ ریزی، لائحہ عمل ، دستور العمل نہ اور ہدف نہ رکھتا ہو۔ کیا ہم زندگی کے لیے برنامہ اور ہدف رکھتے ہیں؟ کربلا :خواتین کے کردار سے استفادہ:کرنے کا درس دیتا ہے ۔ خواتین نے دنیا کی بہت سی تحریکوں میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے حضرت عیسیٰ ، حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم علیہم السلام۰۰۰ یہاں تک کہ پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے کے واقعات میں بھی خواتین کا کردار بہت موثر رہا ہے۔ اسی طرح کربلا کے واقعات کو جاوید بنانے میں بھی حضرت زینب (س) حضرت سکینہ (س) ، اسیران اہل بیت اورکربلا کے دیگر شہداء کی بیویوں کا اہم کردار رہا ہے۔ پیغام کربلا وعاشورا کو اسیران کربلا نے ہی عوام تک پہنچایا ہے۔ کیا ہم نے کربلا کے اس درس کو یاد کرلیا ہے ؟ اگر کیا ہے تو کہاں تک خواتین ملت کو طاغوتوں ، اور استکباری قوتوں اور نوجوان نسل کو مغربی تہذیب وتمدن کے گندے دلدل سے نکالنے کے لیے تربیت دینے میں کامیاب ہوۓ ہیں۔؟ کربلا ہمیں:میدان جنگ میں بھی یا د الٰہی کادرس دیتا ہے جنگ کی حالت میں بھی اللہ کی عبادت الہی اور ذکر الہی سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔ حسینؑ نے شب عاشور:نمازو عبادات کے لیے ایک رات کی مہلت لی شب عاشور خیموں سے رات بھرعبادات و مناجات کی آوازیں آتی رہیں
عاشور کے دن حسینؑ نے نماز ظہر کو اول وقت پڑھا۔
فرات کے کنارے یتیمان مسلم نے ظالم سے مہلت لیے کر نماز پڑھی اس پورے سفر میں حضرت ؑ کی نماز شب بھی قضا نہ ہوسکی ، اگرچہ : آپ کو بیٹھ کر ہی نماز کیوں نہ پڑھنی پڑی ہو۔ اگر حالت جنگ نماز وعبادت کے ساتھ ساز گار ہے ۔ تو عزاداری کیوں عبادت ونمازکے ساتھ ساز گارنہیں۔ کیوں ہماری عزادای اور مجالس کی وجہ سے نماز میں سستی آجاتی ہے ؟ زینبؑ نے نماز تہجد قضا نہیں کی، زینبی کام کرنے والوں کی واجب نمازیں کیسے قضا ہوجاتی ہیں ، ؟ کربلا :ہمیں ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا درس دیتا ہے ۔ سب سے اہم بات انسان کا اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔
چاہے اس میں انسان کو ظاہری طور پر کامیابی نظر نہ آئے۔
انسان کی سب سے بڑی کامیابی اپنی ذمہ داری کوپورا کرنا ہے ، چاہے اسکا نتیجہ کچھ بھی ہو۔ حسینؑ نے بھی، یہی فرمایا تھا کہ جو اللہ چاہے گا بہتر ہوگا، چاہے میں قتل ہو جاؤں یا مجھے (بغیر شہادت) کامیابی مل جائے۔ یہ حسنینت ہے کہ بس اپنی ذمہ داری کو پوری کرے، یہ نہ دیکھے کہ دنیا کیا کہے گی ۔ میرا سلیقہ کیا کہتاہے ۔ صرف یہ دیکھے کہ اس وقت خداکی طرف سے میرا وظیفۂ شرعی کیا ہے ؟ مثلاً: آپ میٹینگ میں ہیں : اذان ہوتی ہے ، آپ اٹھ سکتے ہیں۔ نماز کے لیے جاسکتے ہیں ۔تو جاناچاہئیے ، یہ نہ دیکھے کہ چونکہ سب نہیں جارہے ، پس میں بھی نہیں جاؤنگا۔ اسی طرح سچ بولنا:حق کی حمایت کرنا،گناہ سے بچنا،واجب پہ عمل کرنا وغیرہ یہ درس کربلا ہے کہ مکتب کی بقاء کے لئے قربانی دینی ہے اسلام میں، مکتب کی اہمیت، پیروان مکتب سے زیادہ ہے۔ مکتب کی بقاء کے لئے علی و حسین جیسی معصوم شخصیتوں نے بھی اپنی جانوں کو فدا کردیا۔ حسینؑ جانتے تھے کہ یزید کی بیعت دین کے اہداف کے خلاف ہے
لہٰذا بیعت سے انکار کردیا۔ اور دینی اہداف کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کردی،
امت مسلمہ کو سمجھا دیا کہ مکتب کی بقا کے لئے مکتب کے چاہنے والوں کی قربانیاں ضروری ہے۔
یہ قانون فقط اس زمانہ سےمخصوص نہیں بلکہ ہر زمانہ کے لئے ہے
کیا ہم نے مکتب کو اورمکتب کی حفاظت کی اہمیت کو جاناہے ؟ اگر نہیں جانا ہے،تو حسینی نہیں ہے ۔عاشورائی نہیں۔ اگر جانا ہے تو مکتب کی بقاء کے لیے کیا کیا ہے ؟ یہ دس کربلا ہے کہ: اپنے رہبر کی حمایت ضروری ہے کربلا ،اپنے رہبر کی حمایت کی سب سے عظیم جلوہ گاہ ہے۔ حسین ؑ نے شب عاشور اپنے ساتھیوں کے سروں سے اپنی بیعت کو اٹھالیا تھااور فرمایا تھا جہاں تمھارا دل چاہے چلے جاؤ۔
مگر عاشقان حسینؑ نے آپ کو تنہا نرغۂ اعدا ٔ میں نہیں چھوڑا:
شب عاشور آپ کی حمایت کے سلسلہ میں حبیب ابن مظاہر اور ظہیر ابن قین کی بات چیت قابل غور ہے۔ یہاں تک کہ آپ کے اصحاب نے میدان جنگ میں جو رجز پڑہے ان سے بھی اپنے رہبر کی حمایت ظاہر ہوتی ہے ،
حضرت عباس ؑ نے فرمایا :"و الله إن قطعتموا يميني،
تم نے میران داہنا بازوجدا کردیا تو کوئی بات نہیں،
إني أحامي أبداً عن ديني،میں پھر بھی اپنے دین کی حمایت کروں گا۔
و عن امام صادق اليقين، نجل النبي الطاهر الأمين." اپنےسچے رہبر برحق اور زلالہ پاک رسول الہ کی حمایت کرتا رہونگا۔ مسلم ابن عوسجہنے آخری وقت میں حبیب کو وصیت کی کہ امام کو تنہا نہ چھوڑنا اور ان پر اپنی جان قربان کردنیا۔ اب ہم سے سوال ہے کہ ہمارا رہبر کون ہے ؟ امام زمانؑ ،ولی امر مسلمین،نائبین امام زمانہؑ ؟ اگر انہیں خدانے ہمارے لیے رہبر وراہنماکے عنوان سے منتخب کیا ہے تو ہم نے انکی حمایت کے لیے کیا کیاہے ؟ کیا اصلاً :امام زمانؑ کی شناخت ہوئی ہے ؟ کیا:نائبین امام زمانؑ کی معرفت حاصل ہوئی ہے ؟ کیا امام زمانؑ کی محبت ومعرفت واجب نہیں ؟ اگر واجب ہے تو ہم کہاں تک کس حدتک ان سے محبت کرتے ہیں کس حدتک انہیں روزانہ یاد کرتے ہیں؟ روزانہ کتنی مرتبہ امام زمانؑ کو سلام کرتے ہیں؟ کتنی مرتبہ دعائے امام زمانؑ پڑھتے ہیں؟ کتنی مرتبہ :ان سے تجدیدعہدکرتے ہیں؟ انکی خاطر : کونسا اساسی کام کیا ہے ؟ کیا:ایک گناہ اس لیے چھوڑ دیاہےکہ اس سے امام زمانؑ کو تکلیف ہوتی ہے ؟ غیبت ، تہمت، چغلی،بدعہدی،بے وفائی، تعصب، کیا:کسی برے کام کو اس لیے چھوڑ دیاہوکہ انہیں یہ کام پسندنہیں؟ کیا:سگریٹ نوشی، نسوارکشی،بنڈاربازی،ویلگردی،قہقہ بازی، کیا:ایک نیکی انکی خاطر شروع کردی ہے؟ کون سا نیک کام: ان سے نزدیک ہونے کے لیے شروع کیا ہے ؟ نماز تہجد، نمازجماعت،دعائے ندبہ،دعاہائےامام زمانہؑ:نماز امام زمانہ؛ کون سی کتاب :انکی معرفت وشناخت کے لیے شروع کیاہے؟ بہار انقلاب، جمال منتظرؑ،ایسی دوسری کتابیں: خلاصہ اپنے امام وہبرکے لیے کیا کیا ہے جو قابل ذکرہو؟ حسینیت ظہور منتظر:کے لیے ہرلحظہ ہرآن تڑپنے کانام ہے اس لیے کہ عاشوراء ظہور کے لیے مقدمہ تھا۔ کربلامیں حسینؑ نے اسلام کی سربلندی کے لیے استغاثہ بلند کیا مھدیؑ آئینگے اور استٖغاثۂ حسینؑ کا جواب دینگے۔ حسینؑ نے جان ومال واولادو ناموس کی قربان دیکر بچالیا۔ مھدی آئینگے اور اسلام کو پوری دنیا میں نافذ کرینگے۔ کربلامیں حسینؑ اور انکے اہلبیتؑ کا ناحق خون بہایا گیا۔ مھدی آئینگے اور ناحق بہائے خون کا انتقام لینگے۔ جو علم عباس کے بازؤون کے قلم ہونے سے کربلامیں گرا مھدیؑ اسے اٹھا کر پوری دنیا پہ لہرائینگے۔ حسینؑ نے جس جس کا م کاآغاز کیا ، مھدیؑ ان کی تکمیل کرینگے ۔ حسینؑنے عاشوراء کے دن قیام کیا اور مھدی عاشور کو ظہور فرمائینگے۔ رسول: حسینؑ کی مدد کرنا مھدی کی مدد کرنا ہے ۔ فرشتے قبرحسینؑ پہ تا ظہورمہدی منتظرہیں تاکہ مھدی کی مدد کریں۔ حسینؑ کی ولادت کے دن مھدیؑ اور مھدی کی ولادت کے دن حسینؑ کو یاد کرنے کی تاکید ہوئی ہے ۔ مھدی کو حسینؑ کی نسل میں قرار دیا گیا ہے ۔ نیمۂ شعبان شب مخصوص زیارت اباعبداللہ الحسینؑ ہے ۔ دعائے ندبہ : امام زمانؑ کے فراق میں تڑپنے والوں کا نوحہ ہے ، اس نوحے کا ایک مصرع :این الحسنؑ این الحسین این ابناء الحسین ہے ۔ دعائے ندبہ : میں امام زمان ؑ کو منتقم خون حسینؑ کہہ کر بلایا جاتاہے: این الطالب بدم المقتول بکربلا زیارت عاشوراء میں امام زمانؑ کے ساتھ ملکر خون حسینؑ کا انتقام لینے کی دعا کی جاتی ہے ۔:اَن یَّرؕزُقَنِی طلبَ ثارک مع امام منصور من اہل بیتِ محمد:خدایا مجھے امام منصور یعنی امام زمانؑ کے ساتھ ملکر خون حسینؑ کاانتقام لینے کی توفیق عنایت فرما۔ روز عاشوراء ایک دوسرے کو ایک اس طرح تعزیت پیش کرنے کی تاکید کی گئی ہے کہ :اعظَمَ اللہُ اجورَنا بِمُصا بِنا الحسینؑ وجَعَلَنا وَاِیَّاکُم مِنَ الطالِبِینَ بِثَارِہٖ مع ولیِّہٖ الامامِ المھدی من آلِ محمدٍ علیھم السلام: خداوند مصیبت حسینؑ میں ہمارے اجروثواب کو زیادہ کرے ، اور ہمیں ان لوگوں میں سے قراردے جو مھدی آل محمدؐ کے ساتھ مل کر خون حسینؑ کاانتقام لینگے۔ مھدی ویاران مھدی کا نعرہ :خون خواہی حسینؑ ہوگا: یالثارت الحسینؑ :آوخون حسینؑ کانتقام لینے کے لیے۔ لھذا: عاشوراء زمینہ ساز ظہور ہے اور ظہور تکمیل کنندہ عاشوراء ہے ۔ ہم نے عاشورائے حسینی میں ظہورمھدیؑ کے لیے کیا اقدام کیا ؟ ہم نے عاشوراء سے کیا لیا اور ظہورکے لیے کیا کیا۔ کیا ہمارا سفر عاشوراء سے ظہور کی طرف ہے ؟ عاشورا ایک انقلاب ہے ، اور مقدمہ انقلاب مھدیؑ ہے ، کیا ہم نے انقلاب مھدیؑ کے لیے خود کو تیار کرلیاہے؟ حسین ؑ کے باوفا اصحاب نے حسینی انقلاب کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ، اپنا خون دیا،اپنی زندگی وقف کردی۔ کیااس سے: ہم میں یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ ہمیں انقلاب مھدی موعودؑ کے لیے کچھ وقت اپنی زندگی کا صرف کرنا چاہئیے؟ حسین ؑ کے باوفا اصحاب کی وفاداریان ہمیں آج کے امام امام زمانؑ (عج) کے ساتھ وفا داری کا پیغام نہیں دیتی؟ ہماری وفاداری کا کوئی ثبوت ؟ کوئی علامت،کوئی آثار؟ امامؑ زمانؑ کی معرفت کہاں تک حاصل کی ہے ؟ کتنے نام انکے یاد ہیں؟ کتنی داستانیں انکی یاد ہیں ؟ کتنی کتابیں انکے باری میں پڑھی ہی؟
دن میں کتنی مرتبہ انہیں یاد کرتے ہو؟کتنی مرتبہ سلام کرتے ہو؟
انکی ولادت وغیبت وظہوروانتظار کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
کربلا:کا پیغام ہے کہ :دنیا،خطرناک لغزش گاہ ہے:
دنیا کے عیش وعشرت اور مال و دولت کی محبت تمام سازشوں ا ور فتنہ و فساد کی جڑہے۔ میدان کربلا میں جو لوگ گمراہ ہوئے یا جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا، ان کے دلوں میں دنیا کی محبت سمائی ہوئی تھی۔ یہ دنیا کی محبت تھی جس نے ابن زیاد وعمر سعد کو خونِ حسین بہانے پر آمادہ کیا۔ کسی نے شہرِ ری کی حکومت اور کسی نےیذید سے ملنے والے انعامات کی امید پر حسینؑ فرزند رسول کا خون بہا یا۔ جن لوگوں نے: آپ کی لاش پر گھوڑے دوڑآئے وہ بھی ابن زیاد سے اپنی اس کرتوت کے بدلے انعام چاہتے تھے۔ حسین :الناس عبیدالد نیا والدین لعق علی السنتھم
لوگ دنیا پرست ہیں، دین فقط ان کی زیانوں تک ہے۔
حسین ؑ کے ساتھیوں کے دلوں میں دنیا کی ذرا برابربھی محبت نہ تھی ،اس لئے انھوں نے بڑے آرام کے ساتھ اپنی جانوں کو راہ خدا میں قربان کردیا۔ انکے دلوں میں صرف خداورسولؐ اور اہل بیتؑ رسولؐ کی محبت تھی ۔ ترکت الخلقَ طُرّاً فی ہواک:: انہوں نے خدا کے لیے ساری خدائی کو چھوڑ دیاتھا۔ وَایتمت العیال لکی اراک: انہوں نےبچوں کی یتیمی پہ محبت الٰہی کو ترجیح دیا۔ ولوقطعتنی فی الحبِّ اِرباً : انہوں نےخداکی محبت میں جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو قبول کیا: لما حنَّ الفؤادُ الی سواکَ: انکے دل غیر خداکی طرف مائل ہوہی نہیں سکتے ۔ امام صادق ؑ:ان المومن اشد من زبر الحديد, مومن فولادسے زیادہ سخت اور استوار تر ہوتاہے۔ ان الحديد اذا دخل النار لان فولاد تو آگ میں آنے کے بعد نرم ہوجاتاہے ۔ و ان المومن لو قتل و نشر ثم قتل لم يتغير قلبه. اگرمومن کوقتل کیاجائے ،پھر زندہ کیا جائے ، پھر اسے قتل کرے ، تب بھی مومن کے دل میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ (بحار/80 /178) حسین ؑ نےعاشور کے دن صبح کے وقت جو خطبہ دیا اس میں بھی دشمنوں سے یہی فرمایا کہ تم دنیا کے دھوکہ میں نہ آجانا۔ کہیں دنیا کے زرق وبرق نے ہمیں دھوکہ میں تو نہیں رکھا؟ کیا ہم عاشورائیوں کی طرح مومن ہیں جو جان سے گذر سکتے ہیں ۔ مال ودولت سے ہاتھ اٹھا سکتے ہیں۔ اولاد قربان کرسکتے ہیں۔ زندگیا ں وقف کرسکتے ہیں۔ شادیاں اور خوشیاں نثار کرسکتے ہیں۔ وہ اپنے امام وقت کی کس حدتک معرفت رکھتے تھے ؟ ہم اپنے امام زمانؑ کی کتنی معرفت رکھتے ہیں؟ وہ حسینؑ کے لیے کیا کرگئے ؟ ہم مھدیؑ زہرا ؑ کے لیے کیا کرتے ہیں؟ ہممھدی ؑ وحسینؑ ،عاشوراء وظہور،کے درمیاں رابطے سے بے خبرہیں مھدی : حسینؑ کا تسلسل ہے ۔ اور انتظار:عاشوراء کا تسلسل. انتظار: بطن عاشوراء سے پیداشدہ ایک حقیقت ہے۔ عاشوراء نے ہمیں انتظاردیا۔ اور ظہور کا انتظار کرنا سکھایا۔ مھدی :فرزندِ حسینؑ ہیں ، اور انتظار ، فرہنگ عاشوراء سے برآمد شدہ۔ انتظار مھدیؑ :یعنی ایک اور حسینؑ کا انتظار: عاشوراء : پشتیبان و زمینہ ساز ظہور ، ہے ۔ عاشوراء :رمز حیات شیعہ ، اور انتظار وظہور رمز بقای شیعہ: عاشوراء :رمزِ قیام وانقلاب تشیع : انتظار عاملِ حفظ واستمرار تشیع: حسینوارث تمام انبیاء ہیں ، اسی طرح مھدیؑ وارثِ عاشوراء ہیں عاشوراء : دریچۂ انتظار ہے ۔اورانتظار تجلی آرزوہای کربلا۔ فرہنگ عاشورا :منتظِران مھدیؑ کا سرمایہ ہے ۔ اور عصرظہور میں انکے لیے مایۂ شکوفائی و جوش وخروش ہے۔ جس کے پاس کربلاہے وہی انتظار کرسکتا ہے ۔منتظِر رہ سکتا ہے جو انتظار کریگا ظہور کوپائے گا۔ ہمیں اپنے اوصاف میں کربلائی بننا ہے ، عاشورائی بننا ہے ۔ عاشورائی بن کے انتظار کرنا ہے ۔انتظارکرکے ظہور کو پانا ہے ہم اپنی موجودہ :تمام تر سستیوں ، غفلتوں اور سردمہریوں کے ساتھ نہ عاشورائی بن سکیں گے اور نہ ہی انتظار کرسکیں گے ، کیسے ممکن ہے ؟کہ عاشوراء رکھنے والے سحرخیز نہ ہوں؟ اگر کربلامیں ہوتے :تو کیا صبح عاشور کو سوئے ہوتے ،؟اگر سوئے ہوتے کیا حسینی ہوتے ؟ اگر کربلامیں ہوتے :اور چند قدم پہ مسجد میں حسینؑ نماز ادا کررہے ہوتے ،تو ہم اپنی فجرکی نماز کہاں اداکرتے ؟ مسجد میں حسینؑ کے ساتھ فرشتوں کے ساتھ یاخیمے میں خود تنہا؟ کیا ہمارے آس پاس کی مسجدیں ، مسجد نہیں ہیں؟ یا ان میں فرشتے اور امام زمان تشریف نہیں لاتے ؟ ہم گھروں میں صبح کی نماز ادا کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ صبح کےوقت میں علیؑ کا مسجد جانا ہم بھول گئے۔؟ اگر امام زمانؑ دیکھے کہ ہم سستی کی وجہ سے مسجد نہیں جاتے اور گھرمیں ہی نماز ادا فرماتے ہیں تو کی امام زمان ہم سے راضی ہونگے ؟ خبرت هست که مرغان جهان میگویند آخر ای خفته سر از خواب جهالت بردار امام صادق:ابغض الخلق الی الله جیفةُ بالیل و بطّال بالنهار
خدا کے نزدیک لوگوں میں سے بدترین وہ شخص ہے جورات کو مردار کی طرح سویا ہوتاہے اور دن کو فضول اور بے ہودہ چیزوں کو گذار لیتاہے ۔
علی:السکرُ اربعُ سُکُر الشراب و سُکرُالمال وسکر النوم وسُکرُالمُلک مستی کی چار قسمیں ہیں :شراب کی مستی، مال ودولت کی مستی، نید کی مستی، اورحکومت وسلطنت کی مستی۔ جو مستی انسان کو صف عاشقی سے اورحلقۂ وصل سے باہرکرے ، کیافرق پڑتاہے کہ اس کی مستی شراب کی ہو یا نیند کی ؟ خداوند :حضرت موسیٰ کے فرماتاہے :اے پسر عمران وہ شخص جھوٹ بولتاہے جو میری دوستی کا دعوی کرتاہے اور جب رات ہوتی ہے تو خواب راحت میں سویاہوتاہے ۔ کیا ایسا نہیں کہ محب اپنے محبوب کے ساتھ خلوت کی آرزور رکھتاہے خود رابِکُش اے بلبل ازین رشک کہ گل را باباد صبا وقت سحر جلوہ گری بود اے بلبل عاشق ، تو سویا ہوا ہے ؟تجھے تو اس رشک میں جان دینا چاہئیے ،تجھے کچھ خبر بھی ہے، کہ
سحرگاہ سارے پھول بادصبا کے ساتھ ، دلربائی و جلوہ گری وعشوہ گری کرتےتاہے۔
هر گنج سعادت که خدا داد به حافظ از یمن دعای شب و ورد سحری بود هنگام سپیده دم خروس سحری
دانی که چرا همی کند نوحه گری
یعنی که نمودند در آیینهٔ صبح کزعمر شبی گذشت وتو بی خبری بر خیز که عاشقا ن به شب راز کنند گرد در و بام دوست پرواز کنند هر جا که دری بود به شب دربندند الا د ر عاشقا ن که شب با ز کنند دوش وقت سحر از غصه نجاتم دادند واندر آن ظلمت شب آب حیاتم دادند سحر با باد می گفتم حدیث آرزومندی خطاب آمد که واثق شو به الطاف خداوندی سحرگاہ باد صبا کے ساتھ قصۂ عشق ودلدادگی کہہ رہاتھا(راز ونیاز ) کررہاتھا کہ نداآئی کہ لطف عنایت الٰہی کے امیدوار رہو۔ صبا وقت سحر بویی ز زلف یار می آورد دل شوریده ما را به بو د ر کار می آورد سحر گاہ نسیم صبح گاہی خوشبوئے زلف معشوق اپنے ساتھ لے آتی ہے ۔کہ عاشقوں کے دل میں اشتیاق کو بڑھا تی ہے ۔ به کُویٔ میکده یا رب سحر چه مشغله بود؟ که جوشِ شاهد و ساقی و شمع و مشعله بود خدایا سحرگاہ تیرے میخانے میں کیا غوغا، کیا ہنگامہ ،
کیا ہمہمہ ، کیا ازدحام، کیا ہیجان تھا۔!
وہاں: عاشقان درگاہ خداکا ازحام تھا، وہاں :ساقیان کوثر وتسنیم کی سقائی تھی، وہاں :لطف ورحمت وکرم وعفو، وبخشش کی شمعین روشن تھی ، مَرو بخواب ، کہ حافظ بہ با رگاہِ قبول زِ وِردِ نیم شب و درسِ صبحگاہ رسید اگر قبوک بارگاہِ خداوند ہوناچاہتے ہوتو سحرگاہ بیدار رہنا سیکھو۔ کیونکہ دعائے نیم شب و الہامات غیبی جو سحرگاہ ملتی ہے
ان سے انسان قبول درگاہ الٰہی بن سکتاہے۔
یہ درس کربلاہے کہ توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے: توبہ کا دروازہ کبھی بھی بند نہیں ہوتا، انسان جب بھی توبہ کرکے صحیح راستے پر آ جائے بہتر ہے۔ حر نے حسینؑ کو گھیرکر کربلا کے میدان میں لایا تھا، عاشور کی صبح کے وقت باطل راستے سے ہٹ کر حق کی راہ پر آگیا۔ حسینؑ کے قدموں پر اپنی جان کو قربان کی، اورکربلا کے عظیم ترین شہیدوں میں داخل ہوگیا۔ ہر انسان کے لئے ہر حال میں اور ہر وقت توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ کیا ہمیں توبہ یا د ہے ؟ کیاہم توبہ کرتے ہیں،؟ جو گناہوں کو یادنہیں رکھتا،جوگناہوں پہ پشیمان نہیں ہوتا۔ جو ان گناہوں کو چھوڑنے کی کوشش نہیں کرتا۔ کیسے ہوسکتاہے کہ وہ ایک شیعہ کہلاسکے ، یا حسنینی کہلاسکے ؟ اے بے خبربکوش کہ صاحب خبرشوی تا راہرو نباشی، کَی راہبر شوی؟ جنہیں گناہوں کی فکر ہے ، وہ کیسے رات کو خواب خرگوش کے مزے لے سکتاہے؟ جو نسیم سحری کے جھونکوں لذت سے بے خبر سوتاہے ، جو تاریکیوں میں خوش ہے ، جو صبح کی سفیدی کے گریزان ہے ۔ جو اس خواہش میں سوتاہے کہ کاش یہ رات لمبی ہوکہ ہم لمبی نیند سو سکیں۔ انکی زندگیوں میں کوئی صبح نہیں ہے ، فجر نہیں ہے، سحر نہیں ہے یہ بے سحر لوگ ہیں ، جنکی زندگیوں میں صبح وسحرکا کوئی کردار نہیں، اور جن کاصبح وسحر میں کوئی کردار نہیں ۔ وہ صبح عاشور بھی نہیں رکھتے ۔ یعنی :جو لوگ سوئے ہوتے ہیں ، صبح وسحر وفجر سے استفادہ نہیں کرتے ، صبح وسحر کی اہمیت وافادیت کو نہیں جانتے ۔ وہ عاشورائی نہیں : انہیں عاشوراء کوئی فایدہ نہیں دے سکتا۔ کتنےعاشورائی ہونے کا دعوی رکھتے ہیں۔مگر وہ جھوٹے ہیں۔ کیونکہ انکی زندگیوں میں عاشوراء ،بپانہیں ہے ۔ عاشوراء رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ :اس میں عاشورائی بپا ہو۔ جس میں عاشوراء بپا ہو، وہ صبح کو سویا نہیں رہ سکتا۔ وہ عاشورائی کیسے ؟جو صبح کو محضر ربوبی میں حاضر نہ ہو۔ عاشورائیان کربلا: سب کے سب صبح عاشورکو بیدار تھے ، اور سب کے سب محضر خدا وامام میں جمع تھے۔ اگر ہر روز عاشوراء ہے تو ہر صبح،کو صبح عاشور ہونا چاہئیے ۔ عاشورائیان کربلا:صبح عاشور ، کواپنی شھادت گاہ میں تھے، بیدار تھے ،محضرربوبی میں تھے، عبادت میں تھے ،
تو عاشوراء رکھنے والوں کو بھی ہرصبح بیدارہوکر عبادت کرناچاہئیے۔
کربلائی ، عاشورائی،حسینی اوزینبی وہ لوگ ہیں ، جو ہر صبح کو صبح عاشور جان لیں ،اور ہرنماز کو اپنی آخری نماز تصور کریں،
اور ہر مسجد کو اپنی شھادت گاہ تصور کریں۔
ہم اگر صبح وسحروفجر سے غافل ہیں، تو خود فیصلہ کریں کہ ہم کربلائی ہیں کہ نہیں ،عاشورائی ، حسینی زینبی ہیں کہ نہیں۔ موسیٰ وفرعون وشبیر ویذ ید این دوقوت از حیات آمد پد ید ہمیشہ سے موسویوں اور فرعونیوں میں جنگ ہے ۔ ہمیشہ سے ابراہیمیوں اور نمرودیوں کے درمیان جنگ ہے ۔ ہمیشہ سے مصطفویوں اور بوسفیانوں کے مابین جنگ ہے ۔ ہمیشہ سے مرتضویوں اور سقیفی افکار والوں کے مابین جنگ ہے ہمیشہ سے حسینیوں اور یذیدیوں کے درمیان جنگ ہے ۔ پس حسینیت ہمیشہ کے لیے ہے ۔ اور ہمیشہ یذیدیت سے برسر پیکار اور کل ارض کربلا ۔ ہرجگہ کربلا ہ، آپ جہاں ہیں وہیں کربلاہے کل یوم عاشوراء ہر روز عاشوراء ہے ۔ ہر روز ،روزِعاشورا ہے تو ہر صبح ، صبح عاشور ہے ۔ پس ہمیں بھی ہر وقت عاشورائی ہونا چاہئیے۔ ہرمہینے میں عاشورائی ہونا چاہئیے محرم ہو یاصفر،شعبان ہویا رمضان ہرموسم میں عاشورائی ہونا چاہئیے۔سرما ہو یا گرما ، بہارہو یا خزان ہردن عاشورائی ہونا چاہئٰے ۔ جمعہ ہو یا ہفتہ، منگل ہو یا جمعرات ۔ ہر وقت عاشورائی ہونا چاہئٰے : دن ہویا رات، فجر ہو یا ظہر ، یا مغرب۔ ہرعمر میں عاشورائی ہونا چاہئٰے : نوجوانی میں ،بھی بڑھاپے میں بھی وہ عاشورائی اور حسینی نہیں جو وقتی ،موسمی،علاقائی ،اور لسانی عاشورائی اور حسینی ہے ۔ جو بعض اوقات میں عاشورائی ہے،مثلاً: ظہرو مغرب کے وقت، عاشورائی نظر آتا ہے ، صبح کو عاشورائی نہیں لگتا۔ جو بعض مہینوں میں عاشورائی ہے،مثلاً: محرم وصفر میں، جو بعض موسموں میں عاشورائی ہے،مثلاً: گرمیوں میں ، بہارمیں، جو بعض علاقوں میں عاشورائی ہے،مثلاً: اپنے علاقے میں ، جو صرف لسانی عاشورائی ہے، مثلاً: اپنی زبان ہوتو ماتم ورنہ نہیں جو بعض وقتوں میں عاشورائی ہے،مثلاً: ظہرو مغرب کے وقت، ایسے لوگ عاشورائی ، کربلائی ، حسینی ، زینبی نہیں ہیں۔ باتقوای ترین لوگ ہی عاشورائی وحسینی ہوتے ہیں۔ اِنّ المُتَّقینَ فی جنّٰتٍ وَّ عُیُونٍ : متقی لوگ جنت کے باغوں اور چشموں میں ہونگے۔
آخِذِینَ مااٰتٰھُم رَبُّھُم :
جو کچھ انکے پروردگار نے انہیں مرحمت فرمایاہے، اسے حاصل کرینگے ، اِنَّھُم کانُوا قَبلَ ذالکَ مُحسِنینَ : کیونکہ وہ اس سے پہلے (دنیامیں) نیکوکار تھے۔ کانوا قلیلاً مِّنَ اللیلِ مَا یَھجَعُونَ : وہ رات کے کچھ ہی حصے میں سوتے تھے۔ وَبالاَسحَارِ ھُم یَستغفِرُونَ : اور سحر کے وقتوں میں استغفار رکرتے تھے ، وَفِی اموالِھِم حقٌ للسّائلِ والمحرومِ : اور ان کے مالوں یں سائل ومحروم کے لیے ایک حق تھا۔ (زاریات/15-19) nainawa110

