علی امام
وکیپیڈیا سے
پیدائش: 1924ء
انتقال:2002ء
فہرست |
[ترمیم] ابتدائی زندگی
مشہور پاکستانی مصور۔مدھیہ پردیش کے شہر نرسنگ پور میں پیدا ہوئے اور آرٹ کی تعلیم کی ابتدا ناگ پور اسکول آف آرٹ سے کی اور پھر جے جے اسکول آف آرٹ بمبئی چلے گئے۔انہوں نے کچھ عرصہ گورڈن کالج راولپنڈی میں آرٹ کی تدریس کے فرائض بھی انجام دیئے
[ترمیم] لاہور آمد
اس کے بعد لاہور آ گئے۔ یہ سن پچاس کا زمانہ تھا اور لاہور اس وقت فن مصوری کا مرکز تھا۔ اس وقت لاہور میں فنکاروں کا ایک گروپ تو وہ تھا جو روایتی مصوری سے جڑا ہوا تھا اور ایک اس کے بر عکس جدت پسند تھا۔
جدت پسند حلقے نے لاہور آرٹ سرکل کے نام سے ایک تنظیم بنائی ۔جس کا نام انڈس آرٹ گیلری رکھا گیا۔ اس کے ذریعے انہوں نے آرٹ کی زبردست خدمت کیاور اس کے تحت مصوری کے جدید فن پاروں کی نمائش کی جاتی رہی۔ یوں تو اس گروپ میں کئی لوگ تھے مگر چند مصور زیادہ سرگرم تھے اور ان میں علی امام، احمد پرویز، انور جلال شمزہ اور معین نجمی زیادہ سرگرم رہے۔
[ترمیم] لندن کا سفر
سن چھپن میں علی امام مصوری کی اعلی تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔ پہلے انہوں نے سینٹ مارٹن کالج آف آرٹ میں اور پھر ہیمر اسمتھ کالج میں مصوری کی تعلیم اور تربیت حاصل کی۔ان دنوں احمد پرویز اور جلال شمزہ بھی لندن ہی میں تھے۔ یہاں بھی ان تینوں نے مل کر پاکستانی مصوروں کا ایک گروپ بنایا جو پاکستان گروپ آف آرٹ کہلاتا تھا۔
[ترمیم] وطن واپسی
علی امام سن سڑسٹھ میں جب لندن سے پاکستان واپس آئے تو اس وقت مجسمہ ساز اور مصور آذر زوبی سینٹرل اسکول آف آرٹ اینڈ کرافٹ کے سربراہ تھے- علی امام بھی اس ادارے سے وابستہ ہو گئے۔ مگر یہ کام ان کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں تھا اس لیے انہوں نے ملازمت ترک کرکے سن اکہتر میں انڈس آرٹ گیلری قائم کی جو آج بھی قائم ہے۔
علی امام نے اس گیلری کے ذریعے آرٹ کی جو خدمت کی اس کی مثال کم از کم پاکستان میں نہیں ملتی۔ انہوں نے تجارتی بنیادوں پر چلنے والی آرٹ گیلری کو ایک ادارہ بنا دیا۔ یہ علی امام کی شخصیت کی کشش تھی۔ وہ مشرق و مغرب میں اس فن کے تمام رحجانات کے واقف ہی نہیں ان پر محیط بھی تھے۔
ایک زمانہ تھا کہ وہ سرگرم کمیونسٹ تھے لیکن آخری دنوں میں وہ تصوف کا مطالعہ کرنے لگے ،یہ فکری تبدیلی تھی یا مزاج کی رنگا رنگی، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔




