یزید بن معاویہ

وکیپیڈیا سے

بنو امیہ
خلفائے بنو امیہ
معاویہ بن ابو سفیان، 661-680
یزید بن معاویہ، 680-683
معاویہ بن یزید، 683-684
مروان بن حکم، 684-685
عبدالملک بن مروان، 685-705
ولید بن عبدالملک، 705-715
سلیمان بن عبدالملک، 715-717
عمر بن عبدالعزیز، 717-720
یزید بن عبدالملک، 720-724
ہشام بن عبدالملک، 724-743
ولید بن یزید، 743-744
یزید بن ولید، 744
ابراہیم بن ولید، 744
مروان بن محمد، 744-750

یزید بن معاویہ (مکمل نام: یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب بن امیہ الاموی الدمشقی) خلافت امویہ کا دوسرا خلیفہ تھا جو 23 جولائی 645 کو پیدا ہوا۔ وہ 680ء سے 683ء تک مسند خلافت پر بیٹھا رہا۔ یزیر تاریخ اسلامیہ کی متنازعہ ترین شخصیات میں سے ایک ہے کیونکہ اس کے دور میں جنگ کربلا میں نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام شہید کئے گئے۔

امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :

یزید قسطنطنیہ پرحملہ کرنے والے لشکر کا امیر تھا جس میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ جیسے صحابی شامل تھے ، اس کے والد امیر معاویہ نے اسے ولی عہد بنایا اور اپنے والد کی وفات کے بعد 30 برس کی عمر میں رجب 60ھ میں زمام اقدار ہاتھ میں لی۔

فہرست

[ترمیم] سنی موقف

یزید کے بارے میں اہل سنت یکساں موقف کے حامل نہیں۔ چند علماء کا کہنا ہے کہ یزید نے براہ راست امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ یہ کام عراق میں اموی گورنر عبید اللہ بن زیاد کا تھا۔ چند کا واضح موقف اختیار کرنے کے بجائے یہ کہنا ہے کہ حالات و واقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی ایک حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا ذمہ دار ٹھہرانا شکوک و شبہات سے بالاتر نہیں ہوگا۔ چند علماء شیعہ عقائد کے حامی نظر آتے ہیں اور یزید کو ایک غاصب حکمران سمجھتے ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل کے باعث عام مسلمان اسے اچھا نہیں سمجھتے۔

وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے 49 برس بعد حکمران بنا جو کہ عہد قریب ہے اور صحابہ کرام موجود تھے مثلا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ جو کہ اس سے اوراس کے باب دادا سے بھی زیادہ اس معاملہ کے مستحق تھے ۔

اس نے اپنی حکومت کا آغاز امام حسین علیہ السلام کی شھادت سے اوراس کی حکومت کا اختتام واقعہ حرہ سے ہوا ، تو لوگ اسے ناپسند کرنے لگے اس کی عمر میں برکت نہیں پڑی، اور حسین علیہ السلام کے بعد کئی ایک لوگوں نے اس کے خلاف اللہ تعالی کے لیے خروج کیا مثلا اھل مدینہ اور ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے یزيد بن معاویہ کے بارے میں موقف بیان کرتے ہوئے کہا ہے :

یزيد بن معاویہ بن ابی سفیان کے بارے میں لوگوں کے تین گروہ ہيں : ایک تو حد سے بڑھا ہوا اوردوسرے بالکل ہی نیچے گرا ہوا اورایک گروہ درمیان میں ہے ۔

افراط اورتفریط سے کام لینے والے دو گروہ ہیں ان میں سے ایک تو کہتا ہے کہ یزید بن معاویہ کافر اورمنافق ہے، اس نے نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام کو قتل کرکے اپنے بڑوں عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ وغیرہ جنہیں جنگ بدر میں علی بن ابی طالب علیہ السلام اور دوسرے صحابہ نے قتل کیا تھا ان کا انتقام اور بدلہ لیا ۔

اس طرح کی باتیں اور اہل تشیع کے ہیں جو حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کو کافر کہتے ہیں تو ان کے ہاں یزید کو کافر قرار دینا تو اس سے بھی زيادہ آسان کام ہے ۔

اور اس کے مقابلہ میں دوسرا گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ایک نیک اورصالح شخص اورعادل حکمران تھا ، اور وہ ان صحابہ کرام میں سے تھا جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں پیدا ہوۓ اوراسے اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ليے برکت کی دعا فرمائی ، اوربعض اوقات تووہ اسے ابوبکر، عمر رضي اللہ تعالی عنہم سے سے افضل قرار دیتے ہیں ، اور ہو سکتا کہ بعض تو اسے نبی ہی بنا ڈاليں ۔

تو یہ دونوں گروہ اور ان کےقول صحیح نہیں اورہراس شخص کے ليے اس کا باطل ہونا نظرآتا ہے جسے تھوڑی سی بھی عقل ہے اور وہ تھوڑا بہت تاريخ کو جانتا ہے وہ اسے باطل ہی کہے گا ، تواسی لیے معروف اہل علم جو کہ سنت پرعمل کرنے والے ہیں کسی سے بھی یہ قول مروی نہیں اور نہ ہی کسی کی طرف منسوب ہی کیا جاتا ہے، اوراسی طرح عقل وشعور رکھنے والوں کی طرف بھی یہ قول منسوب نہيں ۔

اورتیسرا قول یا گروہ یہ ہے کہ :

یزید مسلمان حکمرانوں میں سے ایک حکمران تھا اس کی برائیاں اور اچھائیاں دونوں ہيں، اور اس کی ولادت بھی عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں ہوئی ہے، اور وہ کافر نہيں ، لیکن اسباب کی بنا پر امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جو کچھ ہوا اوروہ شہید ہوۓ ، اس نے اہل حرہ کے ساتھ جو کیا سو کیا ، اوروہ نہ توصحابی تھا اور نہ ہی اللہ تعالی کا ولی ، یہ قول ہی عام اہل علم و عقل اور کا ہے ۔

لوگ تین فرقوں میں بٹ گۓ ہیں ایک گروہ تو اس پرسب وشتم اور لعنت کرتا اور دوسرا اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے اور تیسرا نہ تواس سے محبت اورنہ ہی اس پر سب وشتم کرتا ہے ، امام احمد رحمہ اللہ تعالی اوراس کے اصحاب وغیرہ سے یہی منقول ہے ۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کے بیٹے صالح بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا کہ : کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ہم یزید سے محبت کرتے ہیں ، توانہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے کیا یزید کسی سے بھی جو اللہ تعالی اوریوم آخرت پرایمان لایا ہو سے محبت کرتا ہے !!

تو میں نے کہا تو پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے ؟ توانہوں نےجواب دیا بیٹے تونےاپنے باپ کو کب دیکھا کہ وہ کسی پرلعنت کرتا ہو ۔

اورابومحمد المقدسی سے جب یزيد کے متعلق پوچھا گیا تو کچھ مجھ تک پہنچا ہے کہ نہ تو اسے سب وشتم کیا جاۓ اور نہ ہی اس سے محبت کی جاۓ ، اورکہنے لگے : مجھے یہ بھی پہنچا ہے کہ کہ ہمارے دادا ابوعبداللہ بن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی سے یزيد کےبارے میں سوال کیا گیا توانہوں نے جواب دیا : ہم نہ تو اس میں کچھ کمی کرتےہیں اورنہ ہی زيادتی۔

[ترمیم] شیعہ موقف

امام حسن اور معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان صلح کی ایک بنیادی شرط یہ تھی کہ ان کے بعد کوئی جانشین مقرر نہیں ہوگا مگر امیر شام نے اپنے بیٹے یزید کو جانشین مقرر کیا اور اس کے لئے بیعت لینا شروع کر دی۔ کچھ اصحاب رسول رضی اللہ تعالی عنہم نے اس بیعت سے انکار کر دیا جیسے حضرت عبداللہ بن زبیر۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی بیعت سے انکار کر دیا کیونکہ یزید کا کردار اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں تھا۔ یزید کی تخت نشینی کے بعد اس نے امام حسین سے بیعت لینے کی تگ و دو شروع کر دی۔ یزید نے مدینہ کے گورنر اور بعد میں کوفہ کے گورنر کو سخت احکامات بھیجے کہ امام حسین سے بیعت لی جائے۔ یزید نے جب محسوس کیا کہ کوفہ کا گورنر نرمی سے کام لے رہا ہے تو اس نے گورنر کو معزول کر کے ابن زیاد کو گورنر بنا کر بھیجا جو نہایت شقی القلب تھا۔ محمد ابن جریر طبری، ابن خلدون ، ابن کثیر غرض بہت سے مفسرین اور مورخین نےلکھا ھے کہ ابن زیاد نے یزید کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے خاندان رسالت کو قتل کیااور قیدیوں کو اونٹوں پر شہیدوں کے سروں کے ساتھ دمشق بھیج دیا ۔ دمشق میں بھی ان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ ہوا۔ یزید نے امام حسین کے سر کو اپنے سامنے طشت پر رکھ کر ان کے دندان مبارک کو چھڑی سے چھیڑتے ہوے اپنے کچھ اشعار پڑھے جن سے اس کا نقطہ نظر معلوم ہوتا ہے جن کا ترجمہ کچھ یوں ھے [1]

کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے : شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو ، ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کاانتقام لے لیا ، بنی ہاشم سلطنت سے کھیل رہے تھے اور نہ آسمان سے کوئی وحی نازل ہوئي نہ کوئي فرشتہ آیا ہے

[ترمیم] حوالہ جات

  1. ^ دمع السجوم ص 252

[ترمیم] بیرونی روابط

[ترمیم] بیرونی روابط