تبادلۂ خیال صارف:Khalil

وکیپیڈیا سے


[ترمیم] اللہ کا قرب حاصل کرلیجیئے

اینڈریو گرو کمپیوٹر کے پرزے تےار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ’انٹل‘کا مالک ہے۔وہ پولش نژاد امریکی ہے ۔اس کی پیدائشںپولےنڈکے ایک غریب خاندان میں ہوئی۔جب پولےنڈ پر روس نے قبضہ کیا تو اینڈریو بھاگ کر امرےکہ آگیا۔امریکا میں اس نے بڑے نچلے درجے سے زندگی کا آغاز کیا ۔وہ گھروں اور دفتروں مےں صفائی کرتا رہا دکانوں میں بطور سیلز مےن کام کیا اور جواین ہونے کے بعد کنڈیکڑ بھرتی ہوگیا ۔وہ ایک مستقل مزاج محنتی اور آگے بڑھنے جذبے سے سرشار نو جوان تھالہٰذانوکری کے ساتھ ساتھ پڑھتا رہا۔اس نے گریجویشن کی تو نوکری چھوڑ کر اپنا کام شروع کر دیا۔اس کا ےہ کا آگے چل کر انٹل کمپنی بن گیا ےہ اس وقت کمپیوٹر ہارڈویر بنانے والا دنیا کا سب سے بڑا ادارہ ہے صرف اس کے پی سیریز کے پراسیسر ہی کو لےں تو پی ون ،پی ٹو ،پی تھری اور فور کی آمدنی تیسری دنیا کی مجموعی آمدنی سے زیادہ ہوگی۔ےہ کمپنی ہر سال پچاس ارب ڈالر کماتی ہے ےہ رقم کتنی زیادہ ہے ؟اسکا تخمینہ آپ پاکستان کے سالانہ بجٹ سے لگا سکتے ہےں۔پاکستان کا سالانہ بجٹ سات آٹھ ارب ڈالر کا ہوتا ہے گویا جتنی رقم پاکستان ساڑھے پندرہ کروڑعوام ایک سال مےں خرچ کرتے ہےں ادارہ اس سے سات گناہ رقم سرف ہارڈویر بیچ کر کمالےتا ہے۔اس وقت بلا شبہ اینڈریو کا شمار دنیا کے امیت ترین لو گوں میں ہوتا ہے لیکن ذاتی زندگی میں وہ ایک سادہ نر م مزااج اور درویش صفت انسان ہے ۔ادارے مےں اس کا دفتر دس ضرب بارہ فٹ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ہے وہ دوسرے ملازمین کے ہمراہ کینٹین مےں کھانا کھاتا ہے یہ اس کی زندگی کا ایک منفرد پہلو ہے ۔1997ءمیں ٹائم نے اسے سال کا بہترین آدمی قرار دیا تھا رسالے کے سرِورق پر اس کی تصویر اور اندر ااسکا طویل انٹرویو تھا۔انٹرویو ایک عام انسان کی جدوجہداور کو شش کا بہترین نمونہ تھا برحال دنیا اینڈریوگرو کو انٹل کمپنی کے حوالے سے جانتی ہے۔لیکن اس کی زندگی کا ایک ایسا پہلو بھی ہے جسکا سایہ اس کی ذات اور اسکے دوسرے کارناموں سے کئی گنا بڑا ہے خود وہ غدہ قدامیہ (پراسٹیٹ سرطان )کا مریض ہے۔جب اسے ےہ مرض لاحق ہوا تو اس نے ایک عجیب کا م کیا اس نے معلو مات جمع کی کہ اس واقت دنیا میں کون کون سے ادارے غدہ قدامیہ کے سرطان پر کام کر رہے ہےں اس نے اس کے ماہرین کا پتا بھی چلایا ۔پھر ان تمام اداروں کے سربراہوں اور ماہرین کو جمع کر کے عرض کیا ”آج کے بعد اس مرض پر ہونے والی تمام تحقیق کے اخراجات مےں ادا کروں گاآپ لوگ اخراجات سے بے پرواہ ہوکر کام کریں اور جلد ازجلد اس کی دوا ایجاد کریں۔میں انسانیت کو اس عذاب میں چھوڑکر نہیں جا سکتا۔آنے والے دنوں میں اینڈریو نے اپنے کہے کا پاس رکھا ۔وہ1996ءسے آج تک غدہ قدامیہ پر ہونے والی تمام تحقیق کے اخراجات برداشت کر رہا ہے وہ ہر سال اس مرض کے مریضوں کو طبی امداد بھی دیتا ہے۔اس کے علاوہ اس نے امریکہ کی تمام بڑی طبی یونی ورسٹییوں اور میڈیکل کالجوں کو لکھ کر دیا ہے کہ اگر ان کا کوئی طلب علم غدہ قدامیہ پر تحقیق کرنا چاہے تو اس کے اخراجات برداشت کرنے کیلئے وہ تیارہے ۔میںنے جب ےہ خبر پڑھی تو بہت حیرت ہوئی میں تجسس سے مغلو ب ہوکر امریکا کے دوسرے اداروں اوراینڈریو جیسے دوسرے مالدار امریکیوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے لگا اور ےہ جان کر ششدر رہ گیا کہ دنیا کہ تمام امراض پر ہونے والی تحقیق کے اخراجات اینڈریو جےسے لوگ ہی برداشت کر رہے ہےں ۔مثلاََایڈز کی دوا تیار کرنے پر جو تحقیق ہو رہی ہے اس کے اخراجات بل گیٹس برداشت کرتا ہے امریکا کے چار صنعتی گروہ مل کر سرطان کے خلاف تحقیق کر وارہے ہےں ،مجھے معلوم ہوا کہ دنیا میں جوہری توانائی اور اس کے مضراثرات پرہونے والی تحقیق کے اخراجات امریکہ کا مشہورصنعتی گروہ کارنیکی برداشت کرتا ہے۔راک فیلرکارپوریشن،فوڈکمپنی اور بوئنگ کارپو ریشن پولیو ملیریا اور امراض قلب،گردے کے امراض اور دماغی مسائل کا علاج دریافت کروارہی ہےں۔مجھے ےہ بھی پتا چلا کہ امریکہ اور ےورپ کہ تمام بڑے اداکار، کھلاڑی اور گلوکار جب مشہور ہو جائیں تو کسی نہ کسی فلاحی ادارے کہ ساتھ منسلک ہو جاتے ہےں ۔کوئی ایڈز کے شکار بچوں کیلئیے کام کرتاہے ،کوئی پاگلوں کہ ہسپتا لوں کا نگران بن جاتا ہے،کوئی ٹی بی اور پولیو کے شکار انسانوں کے لیے سڑکوں پر آجاتا ہے اور کوئی معذور بچوں کا نمائندہ بن کر لوگوں کے پاس پہنچتا ہے ۔مجھے معلوم ہوا کے امریکہ کے تمام تعلیمی اداروںےونیورسٹییوں اور فنی تعلےم کے کالجوں کو،امریکا کی امیرشخصیات اور چھوٹے بڑے ادارے ہر سال اربوں ڈالر امداد دیتے ہیں۔یہ امداد معذوروں،ذہین اور ضرورت مندطالب علموں کو وظیفو ں کی شکل میںدی جاتی ہے اور اسے مُحتلف شعبوں میں تحقیق پر بھی صرف کیا جاتا ہے۔مجھے علم ہوا کے امریکہ میں فلاح عامہ اور انسانیت کی بہبود پر اتنا زیادہ کا م ہو رہا ہے کہ باقی تمام دنیا کے تمام اداروں اور تمام شخصیات کا کام ایک طرف اور اکےلے امریکہ کا کام ایک طرف ۔مجھ پتا چلا کہ میکڈونلڈدنیا میں ےتیم بچوں کہ تین ہزار اداروں کو مالی امدادفراہم کرتاہے اور کوکا کولا، پیپسی اور سونی ٹیلی ویژن کمپنی تھلیسیمیا کے شکار بچوں کی مدد کرتے ہےں ۔میں جوں جون ہے معلومات حاصل کرتا گیامرا سر شرم سے جھکتا چلاگیا ۔مجھے اپنے آپ اور اپنے ملک کے امراءپر شرم آنے لگی مجھے محسوس ہوا کہ امریکہ کا لادین اور فحش معاشرہ اخلاق اور زہنی لحاظ سے ہم لوگو ں سے کتنا آگے اور کتنا معتبر ہے۔ہم لوگ مسلمان کہلاتے اور خود کو دُنیا کی بہترین قوم سمجھتے ہےں ۔ہماری اخلاقی حالت ےہ ہے کہ پاکستان میں ایک ہزار ارب پتی ہےں مگر ہر سال پاکستان میں 36ہزار خواتین زچگی کہ دوران مر جاتی ہیں پولیو ،خناق ،ٹی بی ،اور ملیریا جیسی وہ بیماریاں جو ےورپاور امریکہ میں قصہِ ماضی بن چکی ہیں،دنیا میں اب جن کا نشان تک نہیں ملتا ہمارے ملک میں لاکھوں بچے اس مرض کا شکار ہیں ۔ہمارے ملک کا ہر دسواں شہری ہیپا ٹائٹس کا مریض ہے ہر چوتھی عورت چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہے ۔پاکستان میں لوگوں کو صحت جیسا بنیادی حق نہیں مل رہا ،جس کے گردے خراب ہو جائیں اس کو ڈائی لے سسز کی سہولت میسر نہیں جسے دل کا مرض لا حق ہو گیا وہ ہسپتال جانے کی خواہش ہی لے کر فوت ہو گیا ےہ سب مریض ےہ تمام بے بس اور بے کس لوگ صاحبِ ثروت لوگوں کی ذمے داری ہیں ۔ آپ ذیا بیطس کو ہی لے لی جیئے پاکستان اس مرض میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے ہمارے ہاں آج کے جدید دور میں بھی ہر سال لاکھوں لوگ اس مرض کے ہاتھوں مر جاتے ہیں ،انھیں اس مرض کی اطلاع ملتی ہے اور نہ ان کے لواحقین کو !آپ ذیا بیطس کے کسی مریض سے پوچھ لیں ،وہ ااپ کو بتائے گا کہ اس نے حادثاتی طور پرخون کا معائنہ کروایا تو ےہ مرض نکل آےا۔آپ اس سے پوچھیں کے اگر تم حادثاتی طور پر معائنہ نہ کرواتے تو ؟وہ جواب دے گا مجھے ساری زندگی اس مرض کا پتا نہ چلتا اور میں گھل گھل کر مر جاتا۔میں خود ذیابیطس کا مریض ہوں ،میں جانتا ہوں کے اس کا طبی امتحان کتنا آسان اور سستا ہے،اسکا علاج بھی کتنا عام فہم اور سادہ ہے۔بعض حالتوں میں آپ ایک گولی کھائیں،پیدل چلیں ،کھانے پینے میں احتیاط کریں اور مرض حتم!اگر انسولین بھی لگانی پڑے تو وہ کوئی خاص مہنگی نہیںلیکن اس ملک کے کتنے لوگ ہیں جو ےہ طبی امتحان کرانے کے قابل ہیں یا جو ڈائی نل ،کی گولی خرید سکتے ہیں ؟لہذا ےہ لوگ چپ چاپ اپنا آپ موت کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ےقین کیجیئے یہ لوگ مرتے نہیں ےہ قتل ہوتے ہیں اور ان کا خون ان تمام صاحبانِ ثروت کی گردن پر عائد ہوتا ہے جن کی ذرا سی کوشش اور مالی مددانھیں موت سے بچا سکتی تھی میں پاکستان کے امراءصنعت کاروں ،تاجروں ،جاگیرداروں اور پراپرٹی ڈیلروں سے ہرگز ےہ درخواست نہیں کرتا کہ وہ اینڈریوگرو کی طرح محتلف امراض پر تحقیق کروانا شروع کر دیں لیکن ےہ لوگ کم ازکم ملک میں ذیابیطس اور دیگر امراض کے چھوٹے چھوٹے مراکز تو کھول سکتے ہیں،خون کا معائنہ کرنے کی مشینیں آج کل بہت سستی ہیں ملک میں بے روز گار ڈاکٹروں کی بھی کمی نہےں ،ےہ لوگ چھوٹی سی دکان میں تھوڑا سا فرنیچر رکھیں ،خون کا معائنہ کرنے والی ایک مشین لگائیں اور ایک نوجوان ڈاکٹر بھرتی کرلیں۔اس مرکز میں ذیابیطس اور دیگر خطرناک امراض کا مفت معائنہ ہو اور انھیں مفت طبی مشورے دئیے جائیں۔اگر کوئی ادارہ ےا صاحب چاہیں تو ان ضرورت مند مریضوں کو مفت دوائیں بھی دی جاسکتی ہیں آپ دیکھیں گے کہ صرف اس قدم سے معاشرے مین کتنی بڑی تبدیلی آئے گیاور کتنے لوگ موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں گے ۔کسی نے کہا تھاخداساری زندگی ہمارے دروازے پر کھڑارہتا ہے ہم نے بس دروازہ کھولنا ہوتا ہے اوراس سے ہماری ملاقات ہو جاتی ہے ،لیکن ہم بے وقوف اپنے دروازے بند کرکے اسے تلاش کرتے رہتے ہےں ۔مریض بھی خدا کے نمائندے ہوتے ہےں ۔ہم لوگ تھوڑی سی دولت خرچ کرکے اس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں آئیے اپنے اللہ کو راضی کرلیجیئے۔