قلعہ اتك بنارس شاہجہانی دور ميں

وکیپیڈیا سے

Warning sign

امیدوار براۓ سریع حذف شدگی

یہ صفحہ سریع حذف شدگی کیلیے نامزد کیا گیا ہے کیونکہ "{{{1}}}"

اگر آپ کے خیال میں اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے تو قلعہ اتك بنارس شاہجہانی دور ميں کے صفحہ تبادلۂ خیال پر راۓ دیں۔

مضمون کی بقا کیلیے کوئی ٹھوس وجہ نہ دیے جانے کی صورت میں یہ مضمون وقت تجویز یعنی {{{وقت}}} یو۔ ٹی۔ سی، {{{دن}}} {{{ماہ}}} {{{سال}}}ء کے 24 گھنٹوں کے بعد حذف کر دیا جائے گا۔




تخت نشینی کے بعد شاہجہان نے پانچ مرتبہ کابل کا سفر کیا اور ہر مرتبہ اٹک کے مقام سے ہوتا ہوا گزرا۔۱۲/اکتوبر۱۶۴۷ء کو شاہجہان کا بل سے واپسی پر قلعہ اٹک میں فروکش ہوا اس کا احوال شاہ جہان نا مہ میں کچھ اس طرح ہے:

’’۲/ اکتوبر ۱۶۴۷ء کو کشتیوں کے پل سے دریائے سندھ کو عبور کر کے اٹک کے قلعے میں رونق افروز ہوئے۔ اس تاریخ پر شاہزادۂ اقبالمند دارا شکوہ اپنے فرزند یعنی سلطان سلیمان شکوہ کو ہمراہ لیے استقبال کے بطور لاہور سے آکر حاضر خدمت ہوئے حضرت نے انہیں ایک قطعۂ الماس کہ وزن میں سو رتی اور ایک لاکھ روپے قیمت کا تھا عنایت فرمایا۔ عنتر گھوڑے کی نسل کا ایک راہوار جو پندرہ ہزار روپے میں خریدا گیا تھا طلائی زین سمیت مزید عطا ہوا۔ امام قلی خان کے اتالیق شکور بے کا پوتا عبداللہ بیگ نصیب کی یاوری سے عبدالعزیز خان کی ملازمت چھوڑ کر بارگاہ والا میں حاضر ہوا۔ شاہزادہ اورنگ زیب کی سفارش سے کورنش کا شرف حاصل کیا۔ حضرت نے اسے ہزاری ذات چار سو سوار کا منصب دیکر مرصع خنجر،نقرئی زین والا گھوڑا اور پندرہ ہزار روپے عطا فرمائے۔‘‘

(شاہ جہان نامہ جلد سوم صفحہ ۴۷۸)

قلعہ اتك بنارس دور عالمیگری ميں