معرکہ العقاب
وکیپیڈیا سے
| معرکۂ العقاب بسلسلۂ: استرداد |
|||||||
|---|---|---|---|---|---|---|---|
|
|||||||
| متحارب | |||||||
| موحدین | عیسائی اتحاد | ||||||
| قائدین | |||||||
| محمد الناصر | الفانسو ہشتم سانچو ہفتم پیٹر ثانی افانسو ثانی |
||||||
| قوت | |||||||
| تین لاکھ | ایک لاکھ 20 ہزار | ||||||
| نقصانات | |||||||
| ایک لاکھ | نامعلوم | ||||||
اسپین کے مسلمانوں کے قبضے سے آزاد کرانے کی عیسائی مہم استرداد کے سلسلے کی ایک اہم جنگ جو خلافت موحدین اور عیسائیوں کے اتحاد کے مابین تیرہویں صدی میں لڑی گئی۔ اس میں عیسائیوں سے فیصلہ کن فتح حاصل کی اور اسے اسپین میں مسلم اقتدار کے خاتمے کے سلسلے میں اہم موڑ قرار دیا جاتا ہے۔
[ترمیم] پس منظر
یورپ نے سرزمینِ فلسطین پر مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کا بدلہ اندلس و مراکش سے لینا چاہا کیونکہ وہ اس سے زیادہ قریب تھا۔ اس مقصد کے لیے یورپ کے تمام عیسائی برشلونہ اور لیون کے عیسائی سلاطین کے پاس جمع ہونے لگے۔ پاپائے روم نے موحدین کی حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور اس کی زبردست تیاریاں ہونے لگیں۔
موحدین کے خلیفہ ابو عبداللہ المعروف محمد الناصر الدین نے عیسائیوں کی اس تیاری اور مسلمانوں کے خلاف یورپ کے اعلان جہاد کے بارے میں سنا تو اس نے بھی مراکش و اندلس سے افواج کو جمع کرکے تقریباً چھ لاکھ فوج جمع کرلی لیکن ناصر الدین کی بدقسمتی سے اس بڑے لشکر میں دشمنوں سے جہاد کا جوش و جذبہ نہ تھا جس کی وجوہات میں ناصر کی التفاتی اور سرداروں کا بد دل ہونا، فوج میں پہلے جیسی طاقت و ہمت نہ رہنا، انہیں کئی ماہ سے تنخواہیں نہ ملنا اور ناصر الدین کا بذات خود جنگ میں شرکت نہ کرنا شامل تھے۔
ان تمام باتوں کے باوجود اس نے ایک عظیم فوج جمع کرلیا جبکہ دوسری جانب الفانسو ہشتم کے گرد یورپ کے ہر ملک اور ہر علاقے سے عیسائی جمع ہورہے تھے بلکہ براعظم یورپ کی تمام تر طاقت سلطنت موحدین کےخلاف مجتمع ہوگئی تھی اور یہ کثیر لشکر اپنی تیاریوں کو مکمل کرکے العقاب کے مقام پر خیمہ زن ہوا جہاں اس کا ٹکراؤ ناصر الدین کی افواج سے ہوا۔
[ترمیم] طبلِ جنگ
عیسائیوں میں انتہائی جوش تھا کیونکہ ایک طرف ان کا وہی مذہبی اختلاف اور دوسری طرف سرزمین فلسطین پر شکستوں کا صدمہ تھا جس کی تلافی وہ اندلس میں مسلمانوں کو شکست دے کر کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ 609ھ میں العقاب کے مقام پر عیسائی اور اندلس کے مسلمان صف آرا ہوئے۔ اسلامی لشکر کے کئی سرداران چونکہ بد دل تھے اس لیے وہ جنگ سے قبل ہی فوج سے علیحدہ ہوگئے اور لشکر کی تعداد نصف رہ گئی جبکہ بعض سرداران نے دانستہ جنگ کے دوران اپنی حرکات سے کمزوری کا اظہار کیا اور ناصر الدین کے احکامات کی تعمیل نہ کرکے اس زبردست جنگ کو مسلمانوں کے لیے شکست میں بدل دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تقریباً پورا لشکر اپنے انجام کو پہنچا اور صرف ایک ہزار سپاہی ناصر الدین کو بمشکل بچا کر میدان جنگ سے واپس لائے۔
ناصر الدین شکست کھا کر اشبیلیہ آیا اور ادھر عیسائیوں نے اندلس کے مفتوحہ شہروں میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم کردیا۔
اس جنگ نے اندلس میں اسلامی سلطنت کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا اور سلطنت موحدین تیزی سے زوال کی جانب گامزن ہوگئی۔
جنگ العقاب میں شکست کھاکر ناصر الدین دل برداشتہ ہوگیا اور مراکش آنے کے کچھ عرصے بعد 610ھ میں اس کا انتقال ہو گیا۔
زمرہ جات: جنگیں | تاریخ اسپین | موحدین | استرداد

