مروان بن محمد بن مروان
وکیپیڈیا سے
| بنو امیہ |
| خلفائے بنو امیہ |
|---|
| معاویہ بن ابو سفیان، 661-680 |
| یزید بن معاویہ، 680-683 |
| معاویہ بن یزید، 683-684 |
| مروان بن حکم، 684-685 |
| عبدالملک بن مروان، 685-705 |
| ولید بن عبدالملک، 705-715 |
| سلیمان بن عبدالملک، 715-717 |
| عمر بن عبدالعزیز، 717-720 |
| یزید بن عبدالملک، 720-724 |
| ہشام بن عبدالملک، 724-743 |
| ولید بن یزید، 743-744 |
| یزید بن ولید، 744 |
| ابراہیم بن ولید، 744 |
| مروان بن محمد، 744-750 |
- پورا نام: مروان بن محمد بن مروان عرف حمار
- دور: 127ھ تا 132ھ (745ء سے 750ء)
فہرست |
[ترمیم] تعارف
مروان دوم اموی حکومت کا آخری تاجدار تھا۔ وہ تجربہ کار، مستقل مزاج، جفا کش اور بہادر تھا۔ مگر اس کی تخت نشینی تک اموی حکومت کا نظام بگڑ چکا تھا کہ مروان ثانی اس پر قابو نہ پا سکا۔ خود اموی خاندان کے اندر بھی شدید اختلافات پیدا ہو چکے تھے۔ اور ساری سلطنت نا اتفاقی، سازز اور بغاوت کا شکار ہو چکی تھی۔ چنانچہ مروان ثانی کی مدت خلافت کے پانچ سال دس مہینے شورشوں، بغاوتوں اور جنگوں کی نذر ہو گئے۔
[ترمیم] سازشیں اور شکست
ابو مسلم خراسانی انتہائی دلیر اور عقلمند شخص تھا۔ اور وہ تحریک عباسی کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اس نے بڑی فوجی طاقت اکٹھی کر لی تھی۔ اور اموی عہدے داروں کو خراسان اور عراق سے بھا دیا تھا۔ عباسیوں کی بڑھتی ہوئی یلغار سے مروان ثانی کی فیصلہ کن ٹکر دریائے زاب کے کنارے ہوئی۔ اس میں اموی فوج کو شکست ہوئی۔ بدحواسی میں پسپا ہوتے ہوئے ان کی فوج کا بڑا حصہ دریا میں ڈوب گیا۔ ڈوبنے والوں میں شاہی خاندان کے تین سو افراد بھی شامل تھی۔ اس شکست کے بعد مروان ثانی اپنے بچے کچھے ساتھیوں کو لے کر مارا مارا پھرتا رہا۔ وہ دریائے نیل عبور کر کے مغرب کی طرف نکل جانا چاہتا تھا۔
[ترمیم] قتل
مسلسل بھاگ دوڑ ست تھک کر وہ ایک جگہ غنودگی کی حالت میں پڑا تھا کی اس کے تعاقب میں آنے والے ایک دشمن نے اسے ذی الحجہ 132ھ میں قتل کر ڈالا۔ قتل کے وقت اس کی عمر 62 سال تھی۔ اس کے ساتھ بھی بنو امیہ کا چراغ سلطنت ہمیشہ کے لیے گل ہو گیا۔
[ترمیم] عرف حمار
یہاں یہ بات یاد رہے ک بنو امیہ کے اس آخری خلیفہ کو حمار یعنی گدھے کا لقب اس کو اسکی جفا کشی کی وجہ سے ملا، کیونکہ عربی تہذیب میں گدھا جفا کشی کی علامت بھی تصور کیا جاتا ہے۔
[ترمیم] بنو امیہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد
مروان ثانی کے قتل اور اموی دور کے خاتمہ کے بعد بھی بنی عباس کا انتقامی غیض و غضب ٹھنڈا نہ ہوا، چنانچہ فتح کے بعد عباسیوں نے عوام پر رعب و دبدبہ دبانے کے لیے بنو امیہ کے ساتھیوں اور خاندان کا بے دریغ قتل عام شروع کر دیا۔ صرف ایک حادثے ہی میں نوے ہزار اموی قیدیوں کو ڈنڈے مار مار کر مروا دیا گیا۔ پھر ان نیم مردہ لاشوں پر دستر خوان بچھائے گیے اور پر تکلف ضیافتوں کا اہتمام کیا گیا۔ جبکہ اس دوران دسترخوان کے نیچے سے نیم مردہ افراد کی آہیں اور سسکیاں اور جان کنی کی دل خراش صدائیں نکلتی رہیں، بے شک یہ واقعہ اسلامی دور میں سیاہ ترین حیثیت رکھتا ہے۔
آتش انتقام اس پر بھی ٹھنڈی نہ ہوئی تو اموی بزرگوں کی قبروں کی اندھا دھند اہانت کے چکر شروع ہوئے۔ خلیفہ ہشام کی لاش قبر سے نکالی گئی اور اسے سولی پر لٹکا دیا گیا۔
[ترمیم] امری شہزداے کی فراریت
بھاگ کر جان بچانے والے بچوں اور عورتوں کے سوا اموی خاندان کو کوئی فرد بھی زندہ نہ بچ سکا۔ شاہی خاندان کا صرف ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل افریقہ جا کر جان بچا سکا۔ وہ وہاں سے بچتا بچاتا سپین جا پہنچا جہاں اس نے بنو امیہ کی مضبوط ہسپانوی حکومت قائم کی اور سپین میں عظیم الشان اسلامی دور کا آغاز ہوا۔

