افتخار محمد چودھری
وکیپیڈیا سے
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری (ولادت: 12 دسمبر 1948ء) 2005ء سے 2007ء تک پاکستان کی عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس تھے۔ وہ پاکستان کی تاریخ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے پہلے چیف جسٹس ہیں[1]۔ 9 مارچ 2007ء کو صدر پاکستان اور فوجی ڈکٹیٹر اور فوج کے سربراہ ("آرمی چیف") جنرل پرویز مشرف نے بدعنوانی کے الزامات کے تحت انہیں ان کے عہدے سے معطل کر دیا۔ اس معطلی کے لیے "غیر فعال" کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالت عظمی کے چیف جسٹس کو اختیارات کے ناجائز استعمال پر معطل کیا گیا تھا۔ افتخار چودھری حکومتی سطح پر ہونے والی بدعنوانی پر ازخود اقدامات اٹھانے کے سلسلے میں مشہور تھے۔ اس سلسلے میں سب سے مشہور پاکستان سٹیل ملز کا مقدمہ ہے۔
فہرست |
[ترمیم] قانونی دور
بی اے اور ایل ایل بی کی اسناد کے حامل افتخار چودھری وکلاء کی بار میں 1974ء میں شامل ہوئے۔ پھر 1976ء میں لاہور ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ اور 1985ء میں سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ بنے۔ 1989ء میں انہیں بلوچستان کیلیے ایڈووکیٹ جنرل متعین کیا گیا جہاں سے بعد میں ترقی کر کے بلوچستان کے ایڈیشنل جج بن گئے۔ اس عہدے پر 6 نومبر، 1990ء سے 21 اپریل، 1999ء تک متعین رہے۔ ہائی کورٹ کے جج ہونے کے علاوہ افتخار چودھری نے بینکنگ جج، خصوصی عدالت برائے تیز رفتار سماعت کے جج، کسٹمز ایپلیٹ کورٹ کے جج اور کمپنی جج کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ کے صدر بھی رہے جبکہ دو مرتبہ بار کونسل کے منتخب رکن بھی رہے۔ بعد ازاں 1992ء میں بلوچستان لوکل کونسل الیکشن اتھارٹی کے چیئرمین کے طور پر متعین کیے گئے اور 1998ء میں ایک دفعہ پھر اس عہدے پر دوسری مدت کیلیے متعین ہوئے۔ کچھ عرصہ بلوچستان کیلیے چیئرمین ریویو بورڈ کے عہدے پر بھی کام کیا۔ دو مرتبہ پاکستان انجمن ہلال احمر، بلوچستان کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ اس وقت چیئرمین، انرول کمیٹی آف پاکستان بار کونسل اور چیئرمین سپریم کورٹ بلڈنگ کمیٹی کے عہدوں پر بھی کام کر رہے ہیں۔ انہیں 22 اپریل، 1999ء کو بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس نامزد کیا گیا۔ اپنی خدمات اور سینیارٹی کی بنیاد پر 4 فروری، 2000ء کو انہیں سپریم کورٹ میں ترقی دے دی گئی۔
انہیں 30 جون، 2005ء کو جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کیا۔ رخصت ہونے والے چیف جسٹس ناظم حسین صدیقی کے بعد جسٹس افتخار محمد چودھری اعلی عدالت کے اعلی ترین جج ہیں۔
[ترمیم] حسبہ بل کیس
14 جولائی، 2005ء کو سرحد اسمبلی نے چھے دینی جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل کے پیش کردہ متنازعہ حسبہ بل کو منظور کر لیا۔ یہ بل حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ عوام کو اسلامی اقدار پر چلنے پر مجبور کر سکے۔ صدر پرویز مشرف نے اس بل کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرینس داخل کیا جسے جسٹس افتخار محمد چودھری نے سماعت کیلیے منظور کر لیا۔
20 فروری، 2007ء کو عدالت عظمٰی میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں نو رکنی بینچ نے حسبہ بل کی تین شقوں کو آئین سے متصادم قرار دے دیا۔[2]
[ترمیم] پاکستان سٹیل ملز نجکاری کیس
31 مارچ 2006ء کو حکومت نے پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی یونٹ پاکستان سٹیل ملز کے 75 فیصد (ایک ارب 68 کروڑ) حصص 21 ارب 68 کروڑ پاکستانی روپے میں فروخت کر کے اس کی نجکاری کر دی[3][4]۔ تاہم خریداروں کی شناخت کے بارے میں کافی اختلافات اور ابہام پیدا ہو گئے۔ نجکاری کمیشن نے نجکاری سے پہلے اور بعد بولی دینے والوں کے اور خریداروں کے جو نام ظاہر کیے تھے ان میں اختلاف پایا گیا تھا۔[3] علاوہ ازیں ادارہ کی مزدور یونینز بھی نجکاری کے عمل سے خائف تھیں۔ نتیجۃ اس فروخت کو پیپلز مزدور یونین اور پاکستان وطن پارٹی کے بیریسٹر ظفراللہ خان نے سپریم کورٹ کیں چیلنج کر دیا۔ 24 مئی، 2006ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربارہی میں عدالت عظمٰی کے نو رکنی بنچ نے حکم امتناعی جاری کر کے نئی انتظامیہ کو ملز کا کنٹرول سنبھالنے سے روک دیا۔ بعد ازاں، 15 جون، 2006ء اسی بنچ نے نجکاری کو کالعدم قرار دے دیا۔
[ترمیم] 2007ء کے مقدمات
کہا جاتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ان انتہائی اہم مقدمات کی سماعت کرنے والے تھے:
- وزیر اعظم شوکت عزیز کی دوہری شہریت کی تحقیق اور ان کی وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہونے کی قابلیت کے بارے میں مقدمہ
- یہ مقدمہ کہ آیا صدر پرویز مشرف آئندہ صدارتی مدت کیلیے انتخابات میں کھڑے ہو سکتے ہیں
- حبیب بینک کی نجکاری
[ترمیم] معطلی
9 مارچ، 2007ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو صدر جنرل پرویز مشرف نے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات کے تحت معطل کر کے ان خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس داخل کر دیا۔ اس پہلے چیف جسٹس کو صدر نے بلا کر ان سے استعفی طلب کیا جس پر انہوں نے انکار کر دیا۔[5] ان کی اصلی مدت 2013ء میں ختم ہونا تھی [6] ۔ ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ کسی چیف جسٹس کو "معطل" کیا گیا ہو۔ بار کونسلوں نے اس کے خلاف ھڑتال کا اعلان کیا۔ مشہور وکلاء اور ججوں سمیت اکثر اہل علم کے خیال میں یہ اقدام فوجی آمر کی طرف سےکھلم کھلا ڈھٹائی پر مبنی اور آئین کی سراسر خلاف ورزی تھا۔ [7] 9 مارچ کو پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو جنرل ہیڈ کوارٹرز بلا کر اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ رائٹرز کی تصویر کے مطابق اس موقع پر 63 سالہ حاضر سروس "آرمی چیف" پرویز مشرف، جنرل کی وردی میں ملبوس تھے۔ اطلاعات کے مطابق مشرف اس ملاقات میں چیف جٹسس سے کسی قسم کی مفاہمت (سودا بازی) کی کوشش میں تھے[8]۔ اس دوران چیف جسٹس پر استعفٰی دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا مگر چیف جسٹس افتخار چودھری اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور مستعفی ہونے سے انکار کر دیا۔ [9] اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس کو یہاں چار گھنٹے کے لیے مقید کر لیا گیا اور بعد میں انہیں پولیس نے سپریم کورٹ جانے سے روک دیا۔ اس کے بعد انہیں عملی طور پر اپنے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ اگرچہ مشرف کی اس کاروائی کی وزیر اعظم شوکت عزیز نے حمایت کی ہے، مگر حکمران جماعت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے اس واقعہ پر یہ کہہ کر تبصرے سے انکار کر دیا کہ "یہ تنازعہ فوج اور عدلیہ کے درمیان ہے۔" [10]
[ترمیم] سپریم جوڈیشل کونسل
حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کا ٹرائیل خفیہ ہوگا۔ مگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے مطالبہ کیا ہے کہ یہ مقدمہ کھلی عدالت میں چلایا جائے تاکہ عوام کو حقیقت کا پتہ چل سکے۔ [11] ایک رپورٹ جو پاکستان کے اخبار دی نیوز میں اور بی بی سی میں شائع ہوئی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کے تین ججوں میں سے ایک کے خلاف مالی بد عنوانی، دوسرے کے خلاف زمین کی ھیرا پھیری کا مقدمہ سپریم جوڈیشل کونسل میں پہلے ہی زیرِ التوا ہے۔ اور تیسرے کی بیٹی کا میڈیکل کالج میں داخلہ ایک صوبے کے وزیرِ اعلیٰ کی سیٹ پر ہوا ہے۔ [12]
13 مارچ 2007ء کو چیف جسٹس جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش ہوئے اور تحریری جواب داخل کرایا۔ [13] انہوں نے نکتہ اٹھایا کہ کونسل اس کیس کی سماعت کرنے کی اہل نہیں۔ اس سے پہلے بہت ابتر حالات میں چیف جسٹس کو سپریم کورٹ لایا گیا، جہاں وکلاء اور مظاہرین کی بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔ [14]
جمعہ کے دن (16 مارچ 2007) ملک کے بڑے شہروں میں چیف جسٹس کو "غیر فعال" بنائے جانے کے حکومتی اقدام کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ پولیس نے متعدد سیاسی رہنماوں کو گرفتار کر لیا۔ [15] جوڈیشل کونسل نے اپنی سماعت 21 مارچ تک کے لیے ملتوی کر دی۔ [16] اطلاعات کے مطابق حکومت بوکھلاٹ میں چیف جسٹس افتخار سے کسی مفاہمت کی تلاش میں ہے۔ [17]
کونسل نے سماعت 3 اپریل 2007ء تک ملتوی کر دی۔
کونسل نے سماعت 13 اپریل 2007ء تک ملتوی کر دی۔ وکلاء نے ریفرنس کے خلاف مظاہرہ کیا اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ [18]
13 اپریل کو چیف جسٹس افتخار چودھری کے وکیلوں نے کونسل کے تین جج صاحبان کی عدالت میں شمولیت کے خلاف دلائل دیے، جس کے بعد سماعت 18 اپریل 2007ء تک ملتوی ہو گئ۔ اس موقع پر مختلف شہروں میں افتخار چودھری کے حق میں مظاہرے ہوئے۔
[ترمیم] سرگرمیاں
پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے 29 مارچ 2007ء کو ہائیکورٹ انجمن وکلاء، راولپنڈی، سے خطاب کیا، جس میں انھوں نے عدلیہ کی آزاد حثیت پر زور دیا۔ [19] جسٹس افتخار اس "غیر فعالی" کے دور میں مختلف شہروں میں انجمنِ وکلاء سے خطاب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس سلسلہ کا یہ پہلا خطاب تھا۔
15 اپریل2007ء کو چیف جسٹس افتخار چودھری نے حیدرآباد میں وکلاء سے خطاب کیا۔ اس تقریب میں سندھ ہائی کورٹ کے 15 جج صاحبان نے بھی شرکت کی۔ [20]۔
[ترمیم] بیرونی روابط
- نیوزلائن، اپریل 2007ء میں سعید طلعت حسین کا تجزیہ۔ [1]
[ترمیم] حوالہ جات
- ^ بلوچستان سےپہلے چیف جسٹس - بی بی سی اردو ڈاٹ کام
- ^ حسبہ بل:’تین شقیں آئین سے متصادم‘ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام
- ^ 3.0 3.1 سٹیل ملز کا اصل خریدار کون؟ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام
- ^ Pakistan Steel sold at throwaway price - روزنامہ ڈان انٹرنیٹ ایڈیشن (انگریزی)
- ^ چیف جسٹس آف پاکستان معطل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام
- ^ روزنامہ ڈان، 10 مارچ 2007ء
- ^ روزنامہ نیوز، 11 مارچ 2007ء - The intrigue of justice
- ^ خلیج ٹائمز، 11 مارچ 2007ء
- ^ روزنامہ نیوز 13 مارچ 2007ء CJ proves hard nut to crack
- ^ روزنامہ ڈان 12 مارچ 2007ء Shujaat calls it a matter between army and judiciary
- ^ بی۔بی۔سی
- ^ بی بی سی
- ^ Text of chief justice's statement to SJC ڈیلی ٹائمز 14 مارچ 2007
- ^ روزنامہ نیشن 14 مارچ 2007، Iftikhar gets overwhelming support
- ^ روزنامہ نیشن 17 مارچ 2007 Dozens held in day long clashes
- ^ روزنامہ نیشن 17 مارچ2007 SJC defers hearing of reference till 21st
- ^ روزنامہ ڈان 16 مارچ 2007 Govt in talks with CJ as way out of crisis
- ^ روزنامہ ڈان 4 اپریل 2007ء
- ^ روزنامہ نوائے وقت، اداریہ 30 مارچ 2007ء
- ^ روزنامہ ڈان، 16 اپریل 2007ء 15 SHC judges attend reception for CJ


